کیوں نہ دنیا کو مرے قتل پہ حیرت ہوگی
ساتھ میرے مرے قاتل کا جنازہ نکلا
وہ ترا رنگ وفا ہو کہ ترا طرز جفا
میں ہر اک رنگ میں تصویر تمنا نکلا
زندگی کس سے اب امید مداوا رکھے
دشمن جاں تو مرا اپنا مسیحا نکلا
کوئی چہرہ نہ کوئی عکس نظر آتا ہے
اپنی تقدیر کا آئینہ بھی اندھا نکلا
میں نے مانگی تھی شب غم کے گزرنے کی دعا
اور مرے گھر سے بہت دور اجالا نکلا
ساتھ غربت میں کوئی غیر نہ اپنا نکلا
میں فقط درد کے صحرا میں اکیلا نکلا
تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی
جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اسی سے ہم