گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
باغ میں جانے کے آداب ہوا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں
اور کچھ دن ابھی اوروں کو ستایا جائے
جن چراغوں کو ہواؤں کا کوئی خوف نہیں
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچایا جائے
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے


کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

تمہارے کانچ کے محلوں کی عظمت چاہے کچھ بھی ہو
جہاں میں پتھروں کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی
میری فن کاری میری عمر سے پہچاننے والوں
کسی ماچس کی اک تیلی میں طاقت کم نہیں ہوتی
کٹ گئی عمر چھپائے ہوئے غم اپنا شکیبؔ
اپنے منہ سے نہ کبھی حرف تمنا نکلا

کوئی تحفہ نہ کوئی خط نہ کسی کی تصویر
اور مرے گھر سے ترے غم کے سوا کیا نکلا



submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain