دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احسان اتارتا ہے کوئی
اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا
میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو
مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو
میری طرح تم بھی جھوٹے ہو
تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے


چمن سے کون چلا یہ خاموشیاں لے کر
کلی کلی تڑپ اٹھی ہے سسکیاں لے کر
جو رات دن میرے مرنے کی کر رہے تھے دعا
وہ رو رہے ہیں جنازے پہ ہچکیاں لے کر
تماشا دیکھ رہے تھے جو ڈوبنے کا میرے
میری تلاش میں نکلے ہیں کشتیاں لے کر
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں


نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی



ہر دکھ، ہر عذاب کے بعد زندگی آدمی پر اپنا ایک راز کھول دیتی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain