بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے نہ اتنی بے تکلّفی کہ آئینہ حیا کرے نۂ اختلاط میں وۂ رم کۂ بد مزۂ هوں خواۂشیں نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی