اگر خواتین نہ ہوتی تو ہم اب کسی غار میں بیٹھ کر کچا گوشت کھا رہے ہوتے،کیونکہ ہم نے اپنی محبوبہ کو متاثر کرنے کے لیے تہذیب بنائی تھی
اورسن ویلز
کہا بھی تھا کہ زیادہ قریب مت آؤ
بتایا تھا کہ تمہیں مجھ سے مسئلے ہوں گے
مرے خلاف گواہی میں پیش پیش رہا
وہ شخص جس نے مجھے جرم پر ابھارا تھا
دسترس ترکِ تعلق کا سبب ٹھہری
اس کو کافی نہ لگا میرا میسّر ہونا
To be trusted is a greater compliment than to be loved..
گھر والوں کا بس نہیں چل رہا ورنہ چائے میں بھی گوشت ڈال کر دے دیں
🫣
علم کو ڈگریوں میں مت ڈھونڈو
دانشیں احتجاج کرتی ہیں
ٹی وی پر چلنے والا ڈرامہ ”پری زاد“ صرف ڈرامہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حقیقی چہرہ تھا۔ پری زاد ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ مجھے حقیقت پہ مبنی لگا۔ ڈرامے کے ہیرو پری زاد سے ایک امیر کبیر خاتون کہتی ہے!
”سنو لڑکے یہ چہرہ، صورت ، شخصیت ہیں ناں یہ سب لوئر مڈل کلاس کے مسائل ہوتے ہیں۔ مرد کی صورت شخصیت اور وقار سب اس کے پیسے سے ہوتا ہے۔ جاو اس بے رحم دنیا میں جاو اور اپنے حصے کی دولت سمیٹ لو۔ خود کو اتنا امیر کرو یہ جو تمہاری شخصیت کے عیب ہیں ناں دنیا کو سٹائل لگنے لگیں۔ اور ہاں چھوڑو یہ شاعری واعری یہ سب بھرے پیٹ کے چونچلے ہیں۔ غریب کی شاعری دنیا کو فضول لگتی ہے اور مرد اگر امیر ہوتو دنیا کو اس کی گالی بھی شاعری لگنے لگتی ہے۔
Reality 🥺
زندگی کب کی ہو چکی خاموش
دل تو بس عادتاً دھڑکتا ہے
زندگی تو عقلمندوں کے لیے خواب، احمقوں کے لیے کھیل، امیروں کے لیے مزاح، غریبوں کے لیے المیہ ہے
تم کرتے ہوگے اپنے الفاظوں سے متاثر
میری خاموشی سے بڑا کوئی استاد نہیں ہے
*ہم میں کیا ہے کہ ہمیں یاد کرے گا کوئی
*اچھے اچھوں کو یہاں لوگ بُھلا دیتے ہیں
Dunya bahot dekh li..
ab bs susral dekhna h..
مجھ سے حالات کے تلوے نہیں چاٹے جاتے
زندگی مجھ سے دست و گریباں نہ ہوا کر
The perfect age for marriage:
- Biologically: 15
- Religiously: 15-17
- Socially: 26
- Legally: 18+
- Culturally: 24-28
- Economically: 30+
And Logically: never
منسوب تیری ذات سے ، رعنائیاں تمام
تیرے بنا حیات میں کچھ دلکشی نہیں
🖤
کارِ حیات، ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
اُلجھے تو پھر سُلجھ نہ سکے تار زیست کے
ایک ایک سانس کے لیے، کاسہ لیے پھریں
ایسے بھی ہم نہیں ہیں، طلبگار زیست کے
آیت سناؤ صبر کی کوئی قران سے
ورنہ الجھ پڑوں گا میں سارے جہان سے
وہ شام آج تک مرے سینے پہ نقش ہے
اک شخص پھر گیا تھا جب اپنی زبان سے
کبھی جو مجھ کو ___فتویٰ دینے کا اِذن ملے
میں انسان کا انسان کے آگے رونا حرام لکھوں
ہماری کئی حسرتیں ہمارے اندر ہی گُھٹ گُھٹ کے مر جاتی ہیں اور ہم پھر بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھ کر مسکراتے ہیں، کسی کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہونے دیتے کہ ہم اندر سے کس قدر بدصورتی سے توڑے گئے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain