عشق میں ہاری ہو تو اب مرنے پر کمر باندھ لو چلو اٹھو اب اذیتوں کا سفر باندھ لو ایسے تو نہیں کٹنا ہے یہ جبر کا سفر آنکھیں پتھر کرو اور دلگیر صبر باندھ لو
ہجر تو کٹتا ہی نہیں مجھ سے یہ کیسا سفر ہے میری عمر، حیات بس اب ویرانوں کی نظر ہے کسی نے کہا میثم بہت خوبصورت لکھتی ہو میں نے رکھا دل پہ ہاتھ اور کہاں سب درد کا اثر ہے