Abhi Hain Qurb Ke Kuch Aur Marhale Baaqi
Ke Tujh Ko Paa Ke Hamen Phir Teri Tamanna Hai
یوں تو نکما ہوں میں نا ابکار جہان بھر کا۔
پر تو جو نظر کرے صاحب کمال بن جائوں
کیسے تشریح کروں ؟ تیرے آگے الفت کی ؟
جان فدائی کر کیا کوئی نئی مثال بن جائون ؟
کیوں تیری عزت اچھالوں میں دنیا بھر میں؟
کیوں تیری جان کیلئے کوئی وبال بن جائوں
دل چاھتا ھے تیرا ماضی و حال بن جائوں۔
تو جو سوچے میں وہی یار خیال بن جائوں
تیری الفت میں مر مٹنے کو سعادت سمجھوں۔
دور حاضر کی ایک نت نئی مثال بن جائوں
حریف کوشش پرواز ہے یہ موسم برف
میں آشیاں میں ہی پر کھول کھول رہ جاؤں
چٹان بن کے بھی کب تک بچا رہوں گا ریاضؔ
مثال خس ابھی سیل زماں میں بہہ جاؤں
کھڑا ہوں صورت دیوار ریگ ساحل پر
ذرا سی موج بھی آئے تو گھل کے بہہ جاؤں
مرے خدا مجھے اظہار کی وہ قدرت دے
مجھے جو کہنا ہے اک لفظ میں ہی کہہ جاؤں
جو سوچتا ہوں اگر وہ ہوا سے کہہ جاؤں
ہوا کی لوح پہ محفوظ ہو کے رہ جاؤں
یہ کیا یقین کہ تو مل ہی جائے گا مجھ کو
تری جدائی کا جاں لیوا دک تو سہہ جاؤں
خود اپنے آپ کو دیکھوں ورق ورق کر کے
کسی کے سامنے جاؤں تو تہہ بہ تہہ جاؤں
ناخدا نیند میں ہے اور سمندر بیدار
سینۂ موج پہ کب دیکھیے پتوار لگے
ایسی تصویر بناؤں گا میں دریا کی عدیلؔ
وہ جو اس پار نظر آتا ہے اس پار لگے
میں نے تو زخم خریدے ہیں نہ بیچے ہیں کبھی
پھر بھی یہ دل کہ کوئی درد کا بازار لگے
اک جواں غم کا نتیجہ ہے کہ اکثر مجھ کو
راہ چلتا ہوا ہر شخص عزادار لگے
تو سوچ خود کہ جو ترکش پہ آن بیٹھا ہے
وہ بچ سکے گا کہاں تک ترے نشانے سے
گئے دنوں کی رفاقت کا یہ اثر ہے کہ اب
نئے دنوں میں بھی لگتے ہیں ہم پرانے سے
ہوا سے کیسے کہوں کیا ملا بجھانے سے
میں تھک گیا ہوں دیے پر دیا جلانے سے
اسے پکار مرے دل کہ جس نے پچھلے برس
کیا تھا ترک تعلق کسی بہانے سے
مگر یہ کیا کہ پرندے شجر سے گر جائیں
اگرچہ ہوتے ہیں کچھ فائدے ہوا کے بھی
قفس کا قیمتی پنچھی ہوں سو خریدتے وقت
مجھے اڑا کے بھی دیکھا گیا گرا کے بھی
نہیں ہے دشت فقط پیاس کا حوالہ عدیلؔ
میں رو پڑا ہوں سمندر کو آزما کے بھی
وہ آسمان مری دسترس میں کیا آتا
ہزار کوششیں کیں ایڑیاں اٹھا کے بھی
تجھے گلے سے لگائیں تو جاں نکلتی ہے
اسیر جسم ہیں لیکن تری حیا کے بھی
میں مطمئن نہ ہوا تجھ کو غم سنا کے بھی
اندھیرا اور بڑھا ہے دیا جلا کے بھی
قبول کرتے ہوئے دل تڑپنے لگتا ہے
عجیب ہوتے ہیں کچھ فیصلے خدا کے بھی
جب وہ ملا تھا تو اس سے روح کا ناتا جوڑا تھا تنہا
جب روح ساتھ چھوڑ جاۓ تو انسان جیا نہیں کرتے
اے دل توں ان سے ملنے کی امید کیوں کرتا ہے
کچھ لوگ تو عمر بھر بھی ملا نہیں کرتے
واپس تو آتا ہے ہر شجر پے بہار کا موسم
پھر بھی ہر شاخ پر پھول کھلا نہیں کرتے
جو قسمت میں نہ ہو اس سے گلہ نہیں کرتے
کچھ لوگ تو مل کر بھی
ملا نہیں کرتے
سنا ہے روز روز ملنے سے محبت کم ہوتی ہے
یہ سوچ کر ہم بھی تم سے ملا نہیں کرتے
میں جانتا تھا آستیں میں سانپ چھپے ہیں
اپنوں میں چھپے غیروں سے غافل میں نہیں تھا
ہاں ہوں میں برا مانا مگر آپ کے جیسے
معصوموں کے جذباتوں کا قاتل میں نہیں تھا
یہ ظرف مرا ہے کہ ہوں خاموش فرشتہؔ
الفاظ تھے پر آپ سہ جاہل میں نہیں تھا
اک آپ ہی کی دید کے قابل میں نہیں تھا
ترسیں ہیں وہ آنکھیں جنہیں حاصل میں نہیں تھا
لہجوں لو سہا آپ کے تو اپنا سمجھ کر
ان لہجوں کا ورنہ کبھی قائل میں نہیں تھا
sunā hai us kī siyah-chashmagī qayāmat hai
so us ko surma-farosh aah bhar ke dekhte haiñ
sunā hai us ke laboñ se gulāb jalte haiñ
so ham bahār pe ilzām dhar ke dekhte haiñ
sunā hai din ko use titliyāñ satātī haiñ
sunā hai raat ko jugnū Thahar ke dekhte haiñ
sunā hai hashr haiñ us kī ġhazāl sī āñkheñ
sunā hai us ko hiran dasht bhar ke dekhte haiñ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain