وہ عجب دنیا کہ سب خنجر بکف پھرتے ہیں اور
کانچ کے پیالوں میں صندل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بارش سنگ ملامت میں بھی وہ ہم راہ ہے
میں بھی بھیگوں خود بھی پاگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بچپنے کا ساتھ ہے پھر ایک سے دونوں کے دکھ
رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
اک کرن تک بھی نہ پہنچی مرے باطن میں ندیمؔ
سر افلاک دمکتے رہے تارے کیا کیا
لوگ اشیا کی طرح بک گئے اشیا کے لیے
سر بازار تماشے نظر آئے کیا کیا
لفظ کس شان سے تخلیق ہوا تھا لیکن
اس کا مفہوم بدلتے رہے نقطے کیا کیا
یہ الگ بات کہ برسے نہیں گرجے تو بہت
ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ امڈے کیا کیا
آگ بھڑکی تو در و بام ہوئے راکھ کے ڈھیر
اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا
رُت بدلتی ہے تو،.. معیار بدل جاتے ہیں
بُلبلیں خار لیے پھرتی ہیں، منقاروں میں
چُن لے بازارِ ہُنر سے،.. کوئی بہروپ ندیم
اب تو فنکار بھی شامل ہیں، اداکاروں میں
زخم چُھپ سکتے ہیں لیکن، مجھے فن کی سوگندھ
غم کی دولت بھی ہے شامل،. میرے شاہکاروں میں
مجھ کو نفرت سے نہیں، پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں،. محبت کے گنہگاروں میں
حُسنِ بیگانہ سے،.......احساسِ جمال اچھا ہے
غنچے کِھلتے ہیں تو بِک جاتے ہیں بازاروں میں
ذکر کرتے ہیں تیرا مجھ سے، با عنوانِ جفا
چارہ گر پھول پِرو لائے ہیں،.. تلواروں میں
گُل تیرا رنگ چُرا لائے ہیں,.... گُلزاروں میں
جل رہا ہوں بھری برسات کی بوچھاڑوں میں
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں
دِل کی لو دیکھ رہا ہوں تیرے رُخساروں میں
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
❤️❤️✨❤️✨❤️✨❤️✨✨❤️
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
😐😐✨✨✨
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
اگر ہے موت میں کچھ لطف تو بس اتنا ہے
کہ اسکے بعد خدا کا سراغ پائیں گےہم
ہمیں تو قبر بھی تنہا نہ کرسکے گی ندیم
کہ ہرطرف سے زمیں کو قریب پائیں گےہم
⭐⭐⭐⭐
جنونِ عشق پہ تنقید اپنا کام نہیں
گلوں کو نوچ کے کیوں تتلیاں اڑائیں گے ہم
بہت نڈھال ہیں سستا تو لیں گے پل دوپل
الجھ گیا کہیں دامن تو کیوں چھڑائیں گے ہم
اندھیری رات کو یہ معجزہ دکھائیں گے ہم
چراغ اگر نہ جلا تو دل کو جلائیں گے ہم
ہماری کوہ کنی کے ہیں مختلف معیار
پہاڑ کاٹ کے رستے نئے بنائیں گے ہم
ٹوٹا تو کتنے آئنہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
حیران ہوں کہ وار سے کیسے بچا ندیمؔ
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا
چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقا کا تھا
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain