دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں کہ چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہوئی گل دانوں کی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی
گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا
یہ چارہ گر ہیں کہ اک اجتماع بد ذوقاں
وہ مجھ کو دیکھیں تری ذات سے جدا کر کے
خدا بھی ان کو نہ بخشے تو لطف آ جائے
جو اپنے آپ سے شرمندہ ہوں خطا کر کے
خود اپنی ذات پہ تو اعتماد پختہ ہوا
ندیمؔ یوں تو مجھے کیا ملا وفا کر کے
شب فراق کے ہر جبر کو شکست ہوئی
کہ میں نے صبح تو کر لی خدا خدا کر کے
یہ سوچ کر کہ کبھی تو جواب آئے گا
میں اس کے در پہ کھڑا رہ گیا صدا کر کے
عجب سرور ملا ہے مجھے دعا کر کے
کہ مسکرایا خدا بھی ستارہ وا کر کے
گدا گری بھی اک اسلوب فن ہے جب میں نے
اسی کو مانگ لیا اس سے التجا کر کے
اگر ہے موت میں کچھ لطف تو بس اتنا ہے
کہ اسکے بعد خدا کا سراغ پائیں گےہم
ہمیں تو قبر بھی تنہا نہ کرسکے گی ندیم
کہ ہرطرف سے زمیں کو قریب پائیں گےہم
جنونِ عشق پہ تنقید اپنا کام نہیں
گلوں کو نوچ کے کیوں تتلیاں اڑائیں گے ہم
بہت نڈھال ہیں سستا تو لیں گے پل دوپل
الجھ گیا کہیں دامن تو کیوں چھڑائیں گے ہم
اندھیری رات کو یہ معجزہ دکھائیں گے ہم
چراغ اگر نہ جلا تو دل کو جلائیں گے ہم
ہماری کوہ کنی کے ہیں مختلف معیار
پہاڑ کاٹ کے رستے نئے بنائیں گے ہم
نام شاعر نہ سہی شعر کا مضمون ہو خوب
پھل سے مطلب ہمیں کیا کام شجر کس کا ہے
صید کرنے سے جو ہے طائر دل کے منکر
اے کماندار ترے تیر میں پر کس کا ہے
میری حیرت کا شب وصل یہ باعث ہے امیرؔ
سر بہ زانو ہوں کہ زانو پہ یہ سر کس کا ہے
کوئی آتا ہے عدم سے تو کوئی جاتا ہے
سخت دونوں میں خدا جانے سفر کس کا ہے
چھپ رہا ہے قفس تن میں جو ہر طائر دل
آنکھ کھولے ہوئے شاہین نظر کس کا ہے
تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے مرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain