ہمارے شہروں کی مجبور بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
یہ لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
😔😔☕😔☕
سو یہ حال ہوا اس درندگی کا اب
شکستہ دست ہو تم بھی شکستہ پاء میں بھی
سو دیکھتا ہوں تم بھی لہو لہان ہوئے
سو دیکھتے ہو سلامت کہاں رہا میں بھی
💔💔💔💔💔💔😔😔☕☕☕
huhhhhh abhi wo apny bachon liye sehri bna ri hogi 😔😔😔
ستم تو یہ ہے کہ دونوں مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
good ni8 frndzz
تمہیں بھی ضد ہے کہ مشق ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمیں بھی زعم کہ مہا بھارتاں لڑیں تم نے
ہمیں بھی فخر کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
نہ سرو میں وہ غرورِ کشیدہ قامتی ہے
نہ قُمریوں کی اداسی میں کوئی کمی آئی
نہ کھل سکے دونوں جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخِ امن لیے فاختہ کوئی آئی
نہ تم کو اپنے خدو خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
میرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
میرے صراحی و ساغر بھی زرد زرد سے ہیں
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تم ہی کو نہیں رنجِ چاک دامانی
جو سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
کھو گئے تو مل نہ پائیں گے کبھی
ہم بہت نایاب ہیں سنتے نہیں
ہم اٹھا سکتے نہیں بارِ فراق
مضمحل اعصاب ہیں سنتے نہیں
حُسن کے انداز ہیں وشمہ مگر
وہ شبِ مہتاب ہیں سنتے نہیں
ہم دریدہ جسم ہیں ، اُس کے لیے
اطلس و کمخواب ہیں سنتے نہیں
کھو گئے تو مل نہ پائیں گے کبھی
ہم بہت نایاب ہیں سنتے نہیں
چشمِ نم میں خواب ہیں سنتے نہیں
بے وفا احباب ہیں سنتے نہیں
یہ جدائی کے دنوں کے رنج و غم
ہم بہت بیتاب ہیں سنتے نہیں
hayeeeeeeeeeee💔💔💔💔
مجھ کو سراہ کہ میرے زخموں کو چھوا ہے
اے دل نشین! تیرا انداز ستائش عجب ہے
تا عمر سرد جذبوں کے درمیاں گزری ہے
مگر تیری محبت کی گرمائش عجب ہے
کٸ قبریں سما جائیں اس شہر خموشاں میں کلیم
میرے داغ دار دل میں گنجائش عجب ہے
فطرت کے رنگوں کی نمائش عجب ہے
کبھی بہار کبھی خزاں یہ زیبائش عجب ہے
قرنوں سے خود مجھ کو تلاش ہے اپنی
مجھ سے ملنے کی تیری فرمائش عجب ہے
ہاں یہی شخص مری جان ہوا کرتا تھا
اب مجھے دیکھ کے نظروں کو چرُانے والا
میری اِس چشمِ تصور کا مکیں ہے اب تک
وہ جو اِک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
آج جاناں ، ترے دلبر کا دمِ رُخصت ہے
ہائے جی سکتا ہے کیا تجھ کو گنوانے والا
ہاتھ سے ہاتھ جھٹک کر یہ کہا تھا اس نے
ڈھونڈ لینا کوئی ، سینے سے لگانے والا
جس نے بھی دید لڑائی وُہی بسمل ٹھہرا
سوچ کر آ نکھ لڑا ، آنکھ لڑانے والا
یہ نہ سوچا تھا کبھی تم بھی بدل سکتے ہو
کیسے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
مجھ کو محصور کیا یار تری زلفوں نے
ورنہ میں تھا نہ کسی دام میں آنے والا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain