میں لاؤں گا تیرے لیئے ایسی ایسی بالیاں
پوچھتی رہ جائیں گی تیرے آس پاس والیاں,
عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں،
رات بستر پہ میں سوتا نہیں، مرجاتا ہوں،
۔
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں،
اس قدر زور سے ہنستا ہوں، کہ ڈر جاتا ہوں،
۔
میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے،
وہ تیرے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں....
آدھا چاند فلک پر دیکھا ، آدھا جھیل کے پانی میں
کندن رات ملی تھی ہم کو، وہ بھی کس ارزانی میں
باقی عمر سزا میں کاٹی، اور تاوان میں خواب دیے
خواہش کی زنجیر کو، کھینچا تھا ہم نے نادانی میں
جھیل کنارے کچا رستہ، کس گاوں کو جاتا ہے؟
دو کردار وہاں تک آئے، چل کر ایک کہانی میں
ناشکرے انسان کی فطرت سے وہ خود بھی واقف ہے
ہر مشکل میں اسے پکارے، بھولے ہر آسانی میں
غیر مردف غزلیں ہم کو ساقی پھیکی لگتی ہیں
ہوں مترنم تو بھاتے ہیں، مصرعے خوب روانی میں...!!!
جہاں پہ جلوۂ جاناں ہے انجمن آرا
وہاں نگاہ کی منزل تمام ہوتی ہے
زہے نصیب میں قربان اپنی قسمت کے
ترے لیے مری دنیا تمام ہوتی ہے
عالم کو تو خطرہ ہے یہاں تیسری جنگ کا
اور فکر مجھے تیری اداسی کی پڑی ہے
تمہاری باقیات سے حُسن کی مٹی گوندی گئی
تمہیں سامنے بیٹھا کہ حوروں کے نین تراشے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی رنج ہیں رائیگانی بھی مگر اس کے باوجود
حد ہے اعلی ظرفی کی ہم زندگی سے راضی ہیں
تم حقیقتوں میں گم
رونقوں کے باشندے...!!
جوگ پالنے والے
اس نڈھال چہرے کا
سوگ خاک سمجھو گے!
تم سیاہ راتوں کی
چپ سمجھ نہیں پائے،
خواب دار آنکھوں کے
روگ خاک سمجھو گے........؟
تخیئلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ
آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے
اُسے کہو کہ اداسی ہے ماورا حد سے
میرا حال ،پوچھنے آئے
کہو اسے کہ یہ برقی عیادتیں کیسی؟
کرے نہ اب کے فقط کال،
میرا حال ،پوچھنے آئے
غمِ حبیب شکایت ہے زندگی سے مجھے
ترے بغیر بھی کٹتی رہی ذرا نہ رُکی !!
کچھ تعلق صرف روح تک رہ جاتے ہیں،
نہ لفظ بنتے ہیں، نہ قصہ، نہ شکوہ۔
محبت کا بے رحمی سے گلا گھونٹے کوئی جا کر
اس محبت نے محبت سے ہزاروں دل اجاڑے ہیں
یہ ہم جو تجھ سے تجھے بار بار مانگتے ہیں
سلیقہ _ طلب و اِختیار مانگتے ہیں
کسی سے کہہ نہیں دینا کہ عشق ہو گیا ھے
کہ لفظ معنی نہیں ، اعتبار مانگتے ہیں
*ہم نے نکلتے دیکھے ہیں جنازے ارمانوں کے.
*ہم نے کھلے عام دفنایا ہے اپنی خواہشوں کو
میں درد کا گاہک ھُوں، سو بُہتان تراشو
بُہتان بھی ایسا کہ کمر تُوڑ کے رکھ دے
اِک درد اُٹھے پَیر کے ناخن سے اچانک
اور جسم سے ھوتا ھوا سر پھوڑ کے رکھ دے
بیشک میرا رب آزماتا بھی ہے
اور سنبھالتا بھی ہے
ملتا ہے نِصف پیالہ" اور ہے ماتھے پہ شِکن الگ
بَس جئیے تو جا رہے ہیں فریبِ تمنا میں ہم لوگ
وَگرنہ جائے درد اور ہے' اور ہیں مرے جتن الگ
سر جھکانے سے سرفرازی ہے
عاجزی لا زوال نعمت ہے
ہے یہ ارشاد حق تعالیٰ کا
خدمت خلق ہی عبادت ہے
میری طلب ہیں میرے یار تیرے بِہکاوے،
قریب آکے مجھے وَرغلا۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرورت ہے..
.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain