تُو اگر فکر کی دہلیز تک بھی آ جاۓ
جو کبھی سوچ نہ سکتا ہوں شائد پا جاۓ
کون کیا کرتا ہے یہ چھوڑ کہ نہ جانے کب
بھولے بھٹکے ہوۓ راہی کو خدا یاد آ جاۓ
کتنے معنی رکھتا ہے ذرا غور تو کر!!!
کوزہ گر کے ہاتھ میں ہونا مٹی کا !!!
جو دیکھتا ہوں مر جاتے ہیں
پیاسے سیراب نہیں رہتے
آنکھوں کے باہر لکھ دوں گا
اس گھر اب خواب نہیں رہتے
اس واسطے تجھ سے میری نظریں نہیں ہٹتیں
رکھتا ہے خزانے پہ نظر چور مسلسل
میں چاہتا ہوں آپ کو دیکھوں نہ ہوس سے
ابلیس لگاتا ہے مگر زور مسلسل
میں چِلاوں تو زیادہ سے زیادہ فقط
میرے اندر سے آہ نکلتی ہے بس
کیا بتاوں کے چہرہ یہ بگڑا ہے کیوں
میرے اندر اذیت ہی پلتی ہے بس
مُحبت زیادہ دیر بدگمان رہ ہی نہیں سکتی
دل محبوب کے حق میں کوئی نہ کوئی منطق
یا دلیل ڈُھونڈ ہی لیتا ہے___
بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو دیکھتے ہیں
پرانی تصویر ، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں
دل بیمار کی عیادت کو جیسے
سارے روگ بیٹھے ہیں
اندر کی وحشت سے سہمے سہمے
آنکھ کے گوشوں سے جھانکتے آنسو
چہرے پہ آتی مردہ سی مسکراہٹ سے
ہار مان جاتے ہیں
پہلو سے اُٹھ کے ہو گئے دَشنام دراز وُہ
ایسا بھی کینہ صفت " یار خُدا نہ دے
وہؐ مِلا ہے تو طلب مِٹ گئی ہر نعمت کی
طاق پر اب تو مِرا دستِ دُعا رکھّا ہے
.
وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
کچھ تعلق بھی نہیں، پھر بھی خفا ہُوں تُجھ سے
جانے کس مان پہ مَیں رُوٹھ گیا ہُوں تُجھ سے
مُجھے کم عُمرسمجھ کے مِری تضحیک نہ کر
مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے
جس طرح دودھ میں گُھل جاتی ہے چینی، جاناں !
مَیں خیالوں میں اُسی طرح مِلا ہُوں تُجھ سے
گیند بن کر ترے پیروں میں پڑا ہوں کہ تُو کھیل
تُو سمجھتا ہے کہ مَیں کھیل رہا ہُوں تُجھ سے
میرے اجزا میں نہ مٹی ہے نہ پانی ہے نہ آگ
میرے پیکر کو پرکھ لے، مَیں بنا ہُوں تُجھ سے
اے چٹانوں کی طرح مُجھ کو دبانے والے !
دیکھ چشمے کی طرح پھوٹ بہا ہُوں تُجھ سے
میری رگ رگ تری رگ رگ سے جُڑی ہے، مِرے یار !
ظاہری طور پہ تو دُور کھڑا ہُوں تُجھ سے
اے اُداسی ! مَیں ادب اس لیے کرتا ہُوں ترا
غم کے جتنے بھی سبق ہیں، مَیں پڑھا ہُوں تُجھ سے
چمن میں رنگ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایۂ کوئے یار اترا تو میں نے دیکھا
خمار مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دم سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
خدوخال اپنے اجاڑے ہیں ورنہ یوں تو ۔۔
ہم حسین تھے ہمیں آتا تھا مائل کرنا۔۔
اُس کے قابل نہیں تھے ہم ، سو ہم نے پھر _____
آنکھ پونچھی ، درد سمیٹا ، دل اٹھایا ، کوچ کیا !!
تنہا اداس چاند کو سمجھو نہ بے خبر
ہر بات سن رہا ہے مگر بولتا نہیں
ہم ایسے عَام سے چہروں کو کون پُوچھتا ہے
یہاں اداؤں کی قیمت ھے' سَادگی کی نہیں .
ہم نے پیدا کیا تھا سو پالتے گٸے پوستے گٸے
پھر جس کے پر نکلتے گٸے وہ اڑتا چلا گیا
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے
سمندروں کے لیے سیپیاں بناتے تھے
وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا
پھر اس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے
میرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا
مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے
فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر
سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے
ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے
نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بناتے تھے
کوئی آواز نہ آہٹ نہ خیال ایسے میں
رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں
میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں
سایۂ عمر رواں مجھکو سنبھال ایسے میں
جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا
یاد آیا ترے لہجے کا کمال ایسے میں
آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہ بچھا دوں کوئی جال ایسے میں
مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم
دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں
ہجر کے پھول میں ہے درد کی باسی خوشبو
موسم وصل کوئی تازہ ملال ایسے میں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain