وہ جسے سمجھا تھا زندگی ، میری دھڑکنوں کا فریب تھا
مجھے مسکرانا سکھا کے وہ میری روح تک کو رلا گیا
نہیں ہے سنگ کوئی ہمسفر تو کیا ہوا
خاموشیاں ، ویرانیاں ، رسوائیاں تو ہیں
تیری تمنا ، تیرا انتظار اور تنہا سا میں
تھک کر مسکرا دیا جب رو نہیں پایا
یوں وفاؤ ں کے سلسلے مسلسل نہ رکھ کسی سے
لوگ اک خطا کے بدلے ساری وفائیں بھول جاتے ہیں
نیند آتی نہ تھی جس کو میری صورت دیکھے بغیر
آج وہ لوگوں سے کہتا ہے یہ شخص دیکھا سا لگتا ہے
رات دروازے پہ کتنی دستکوں کے نشان تھے
پھر وہی پاگل ہَوا تھی ، پھر مجھ سے دھوکہ ہوا