قابل دید آنکھیں اور ان آنکھوں سے
خود ہی پامال ہوئے خود ہی تماشا دیکھا
اس نے توڑا میرا دل اس سے کوئی شکائیت نہیں
یہ اس کی امانت تھی ، اسے اچھا لگا سو توڑ دیا
: محبت کیا ھے اہل علم جانیں
ہمیں عادت تمہاری ہو گئی ھے
مسکراہٹ کی بات کرتے ہو
جی رہا ہوں یہی غنیمت ہے.
خاموش سا ماحول اور بے چین سی کروٹ نہ آنکھ لگ رہی ہے نہ رات کٹ رہی ہے
آؤ اس فرق نظر کو بھی مٹادیں
دنیا یہ سمجھتی ہے ہم اور ہیں تم اور
ہزاروں کا ہجوم ہے دل کے آس پاس
دل پھر بھی دھڑکتا ہے ایک ہی نام سے
محبت اور موت کی پسند تو دیکھو
ایک کو دل چاہیے دوسرے کو دھڑکن

میں مانگ رہا تھا تجھ کو خدا سے پھر مجھے یاد آگئیں مجبوریاں تیری
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر کس طرح کٹتی ہیں راتیں اس کی
ﺁﯾﺎ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺳﻮ ﺑﺎﺭ ﮨﻢ ﻓﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ
زندگی میں بار بار سہارا نہیں ملتا ۔ بار بار کوئی جان سے پیارا نہیں ملتا۔ ہے جو پاس اسے سنبھال کے رکھنا۔ کھو کر وہ پھر کبھی دوبارہ نہیں ملتا۔
رونے سے نہیں حاصل کچھ اے دل سودائی آنکھوں کی بھی بربادی ، دامن کی بھی رسوائی ہم لوگ سمندر کے بچھڑے ہوئے ساحل ہیں اِس پَار بھی تنہائی ، اُس پَار بھی تنہائی
تنہائی یہ نہیں ہے کہ آپ ویرانے میں ہے تنہائی وہ ہے جو آپ بھرے شہر میں بھی اکیلے ہیں
کچھ راتیں اتنی خالی ہوتی ہیں کہ ستاروں کے ہجوم بھی انہیں بھر نہیں پاتے
ہر رات میرا دل خود سے یہ سوال کرتا ہے ہر کسی کا ساتھ نبھانے والے خود کیوں تنہا رہتے ہیں
سنا ہے ہر بات کا جواب رکھتے ہو تم کیا تنہائی کا بھی علاج رکھتے ہو تم
تجھ پہ کھل جاتی میری روح کی تنہائی بھی میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا
جب کوئی نہ ملا اپنا دکھ سنانے کو تو رکھ دیا شیشہ سامنے اور رولا دیا خود کو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain