تیری نیت ہی نہ تھی ساتھ نبھانے کی۔۔۔
ساتھ چلنے والے راستے نہیں دیکھا کرتے۔۔۔
دیوانا۔۔۔
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسے قدم اٹھانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے سر ِشام آنے لگے
ہمیشہ ساتھ رہنے کی عادت کچھ نہیں ہوتی,
جو لمحے مل گئے جی لو, ریاضت کچھ نہیں ہوتی.
جسے محرومیاں ملی ہوں, وہی جان سکتا ہے
زبانی حوصلہ, جھوٹی مروت کچھ نہیں ہوتی.
کئ رشتوں کو جب پرکھا نتیجہ ایک ہی نکلا
ضرورت ہی تو سب کچھ ہے, محبت کچھ نہیں ہوتی.
کسی نے چھوڑ جانا ہو, تو پھر چھوڑ جاتا ہے
بچھڑنا ہو تو صدیوں کی رفاقت کچھ نہیں ہوتی.
تعلق ٹوٹ جائے تو, سفینے ڈوب جاتے ہیں
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں, حقیقت کچھ نہیں ہوتی...
میرے رب کے خُوبصُورت ناموں میں سے ایک نام یہ بھی ہے
الجّبار
ترجمہ : ٹوٹے دِلُوں کو جوڑنے والا ❤
شرم آتی ہے اپنی مفلسی پر
ذرا سی توجہ پر بک جاتے ہیں
*وہ خسارہ ہمیشہ یاد رہتا ہے جو کسی کے ساتھ دل سے مخلص ہو کر کھایا ہو۔*
ہم تِری رہگزر میں رہتے ہیں
دونوں عَالم نظر میں رہتے ہیں
تیرے در کا طواف کر کے بھی
فکرِ شام و سحر میں رہتے ہیں
کتنے شعلے سکونِ جاں بن کر
نرگسِ بے خبَر میں رہتے ہیں
ڈھونڈنے پر کہَاں ملیں گے ہم
راہرو ہیں سفَر میں رہتے ہیں
لاکھ ہم خانماں خراب سہی
حادثوں کی نظرَ میں رہتے ہیں
ایک دن پوچھتی پھرے گی حَیات
اہلِ دل کِس نگر میں رہتے ہیں!
منزلِ زیست کی کشش مت پوچھ
راستے بھی سفر میں رہتے ہیں
صاحبِ درد ہو کے ہم قابلؔ
کوچہء چارہ گر میں رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل اجمیری
خُوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پُرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دُھوپ اُنڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
دَرد مزے لیتا ہے جو دُہرانے میں
دِل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سُنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اُٹھ کر اگلے موڑ چلے
اُن کو شاید عمر لگے گی آنے میں
جو تم بے عیب چاہو تو،
فرشتوں سے نباہ کر لو ،
میں آدم کی نشانی ہوں،
مجھےانسان رہنےدو.. !
تمھاری کہکشاؤں میں،
میری کوئی جگہ کب تھی،
میں اک اجڑا جزیرہ ہوں،
مجھے ویران رہنے دو.. !
جو ہوتا ھے وہی کرنا،
نہ بدلو رسم دنیا کو،
وہ تم تھے یا کوئی اپنا،
مجھےحیران رہنےدو.. !
میرا دل یوں شکستہ ھے،
کوئی اجڑا سا مندر ہو،
مجھے وحشت ھے رونق سے،
مجھے سنسان رہنے دو.. !
خُدا کےکارخانے میں،
بُرا کچھ بھی نہیں ھوتا..
خُدارا ہوش میں آؤ،
کوئی امکان رہنے دو.....?!
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میری تنہائی پر مُسکراتے رہے
میں بہت دیرتک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
زہر مِلتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف اِک دریچہ کُھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں، چوٹ کھاتے رہے، گُنگُناتے رہے
سخت حالات کے تیزطوفان میں، گِر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
ہم چراغِ تمنّا جلاتے رہے، وہ چراغِ تمنّا بُجھاتے رہے
کل کچُھ ایسا ہُوا میں بہت تھک گیا، اِس لیے سُن کے بھی اَن سُنی کر گیا
کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں
فیض احمد فیض








old is gold... waah thukrain 
https://youtu.be/VlIGtHJavvE
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain