شیری کیوں سب کو پریشان کر رکھا ہے اب بتا بھی دو کیا بات ہے اس دفع فرزانہ بیگم بولی تھیں
شیری تمھارے ڈرامے نہیں ختم ہو رہے اور یہاں سب کی جان پر بنی ہے ماہی غصے سے بولی
اچھا بتا رہا ہو میرا آج بچپن کا خواب پورا ہو گیا ہے میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے مجھے پاکستان آرمی میں سلیکٹ کر لیا گیا ہے
شیری بیٹا اب بتا بھی دو کیا بات ہے بی جان کی پریشان سی آواز آئی
ارے آپ سب پریشان نہ ہو میں بتاتا ہو لیکن آپ لوگ وعدہ کریں کہ نا کوئ روۓ گا اور نہ ہی پریشان ہوگا
شیری نے کہا تھا اسنے ماہی کو دیکھ کر بمشکل اپنا قہقہہ کنٹرول کیا تھا وہ ایسی ہی تھی دوسروں کی خوشی میں خوش اور اداسی میں اس سے بھی زیادہ پریشان پر اب جس طرح شیری نے سب کو دس منٹ میں آنے کا کہا تھا تو وہ بھی پریشان ہو گئ تھی
حویلی کے بڑے کمرے میں اس وقت بی جان شیری کے ابو سکندر صاحب اسکی امی فرزانہ بیگم ماہی کے ابو حمدان صاحب اور اسکی امی جان سعدیہ بیگم موجود تھیں جبکہ ماہی امتحان اور ارمان بھی پاس ہی کھڑے اسکے بولنے کا انتظار کر رہے تھے شیری نے سب کو اتنی ایمرجنسی میں بلایا تھا کہ سب کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں تھیں
شام کے وقت مغلیہ محلوں جیسی یہ حویلی سنسان ہو جایا کرتی تھی مگر آج شیری کو ایک ضروری اعلان کرنا تھا اسلئے سب ہی جاگ رہے تھے
2 قسط نمبر
ابھی اسنے لیپ ٹاپ آن ہی کیا تھا کہ اسے میسجز آنا شروع ہوگئے وہ دودھ کا گلاس پیتے ہوئے ایک سرسری سی نگاہ میسجز پر بھی ڈالتا جا رہا تھا لیکن اچانک ایک خبر پڑھ کر اسے ایسا لگا کہ اس کی سانسیں تھم گئی ہو
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا
اسکا بچپن کا خواب آج پورا ہو رہا تھا
اسنے بار بار اپنی آنکھوں کو رگڑا اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا
وہ فوراً سجدے میں گر گیا اور جب اٹھا تو آنکھیں اشکبار تھیں
مجھے اپنے سرہانے پے تھوڑی سی جگہ دے دو
مجھے نیند نہ آنے کی کوئی تو وجہ دے دو
تیرے سنگ گزر جاۓ یہ عمر جو باقی ہے
ہنس دو نہ زرا کھل کے کاہے کی اداسی ہے
ماہی رو دینے کے قریب تھی اسے رہ رہ کر اپنے بےوقوف بننے پر غصہ آرہا تھا
بڑی مشکل سے فرح نے اسکا دھیان بٹایا تھا
رات کو گھر جا کر اسنے تایاابو تائ امء ابو امی اور بی جان کو شیری کی شکایت لگائی تھی اور اسے ڈانٹ پڑنے پر ماہی کے دل کو تھوڑا سکون پہنچا
😉پر اس ڈھیٹ کو کہا اثر ہونیوالا تھا؟
ارے تمہیں کیا ہوا ہے ماہی ایسے لال پہلی کیوں ہوئ ہو؟ فرح نے اس کا غصے سے لال ہوتا چہرہ دیکھ کر پوچھا
ماہی کی ساری بات سن کے فرا نے دس منٹ تک اپنا قہقہہ کنٹرول کیا تھا
یقین نہیں ہوتا ماہی کہ تم بھی بےوقوف بن سکتی ہو
مجھے بس وہ نمونہ ہی بےوقوف بنا سکتا ہے
تم نے ہی تو
ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ شیری نے بائیک سٹارٹ کی اور جلا دینے والی مسکراہٹ لے کر آگے بڑھ گیا
پیچھے سے ماہی نے غصے سے دروازہ بند کیا
تقریباً پچیس منٹ کی واک کرکے وہ لوگ فرح کے گھر پہنچ گئے تھے ماہی کا تو اتنی دیر میں برا حال ہوگیا تھا
اچھا ماہی اب میں چلتا ہوں
ہاں اللہ حافظ اور سنو میں فون کرو تو اپنی اس خراب بائک میں پٹرول ڈلاڈ کر آجانا
تمہیں کس نے کہا کہ میری بائک میں پٹرول ختم ہو گیا ہے؟
وہ دونوں پیدل چل رہے تھے شیری کو تو پیدل چلنے کی عادت تھی اسلئے اسے زیادہ محسوس نہیں ہو رہا تھا لیکن ماہی کے تو پسینے چھوٹ گۓ تھے تھوڑا سا ہی پیدل چلنے سے اس کا دودھ جیسا سفید چہرہ سرخ ہو گیا تھا
انکو گھر سے نکلے ہوئے ابھی پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ بائک رک گئی ماہی نے پریشان ہو کر شیری کو دیکھا
اوہو ماہی پٹرول ختم ہو گیا
اب کیا کرے گے ماہی نے پریشانی سے پوچھا؟
تھوڑی ہی دور ہے فرح کا گھر ہم پیدل چل لے گے
شیری نے فوراً حل نجالا
اچھا چلو
اچھا میں بائک نکال لو تم آجاؤ پورچ میں
جبکہ وہ حیران کھڑی اسکو دیکھ رہی تھی جسکو منانے کے لیے دو گھنٹے منتیں کرنی پڑتی تھی آج اتنی آسانی سے مان گیا تھا
وہ اپنی ہی سوچو میں مگن تھی جب اسے شیری اتا ہوا دکھائی دیا
ام شیری میرے پیارے کزن بات سننا
ہا بولو ماہی؟
وہ کیا تم مجھے فرح کے گھر چھوڑ آؤ گے پلیززز
پہلے تو وہ انکار کرنے لگا تھا لیکن صبح والا بدلا بھی تو لینا تھا اس لیے مان گیا 😉
ارحان ارمان تم دونوں میں سے کوئی مجھے فرح کے گھر چھوڑ آئے گا کیا ؟
ارے ماہی ہم تو ابھی پروجیکٹ بنا رہے ہیں تم ایسا کرو کہ شیری بھائی کے ساتھ چلی جاؤ
اف پھر شیری کے ساتھ جانا پڑے گا اسنے صبح والا بدلا بھی ابھی تک نہیں لیا اور بی جان کے پاس بھی میں نے آج اسے رکنے نہیں دیا یا اللہ آج بچا لے
وہ غصے سے باہر چلا گیا پر جاتے ہوئے ماہی کو چڑاتے ہوئے دیکھ چکا تھا
ٹم تو میں بعد میں دیکھو گا ابھی میں صبح والی حرکت بھی نہیں بھولا وہ اپنے آپ سے مخاطب
'جہاں تک مجھے یاد ہے ہم نے بی جان 'سے پیار کرنے کی باریاں نہیں لگائی تھیں
بی جان اس کو سمجھا لے اب میری باری ہے
ارے بیٹا اگر آج وہ آہی گئ ہے تو کیوں بھیج رہے ہ
کیونکہ روز وہ اس وقت انکے پاس موجودہ ہوتا تھا اور ایسے ہی انکی گود میں سر رکھ کر اپنی دن بھر کی رواداد سناتا تھا
' ماہی چلو اب تم جاؤ '
'جہاں
ارے آ گئ میری پیاری بچی وعلیکم سلام
جی بی جان بس تھوڑا تھک گئ ہو
اسنے بی جان کی گود میں سر رکھ دیا اور آج یونیورسٹی میں ہونیوالی تقریب کے بارے میں بتانے لگی
تبھی دروازے پر دستک ہوئی
آجائیں
سلام بی جان
آنے والا شیری تھا اور ماہی کو یوں بی جان کی گود میں سر رکھ کے دیکھ کر جل بھن گیا تھا
شیری نے گھڑی پر وقت دیکھا جو آٹھ بجا رہی تھی
پر ابھی تو آٹھ ہی بجے ہیں ماہی
تو اٹھ کر نہانا نہیں تھا کیا تمہیں؟ایسے ہی اٹھا کر لے جاتی کیا تمہیں؟کچھ میری عزت کا بھی خیال کر لو چلو اب جلدی اٹھ کر نیچے آجاؤ
اسلام علیکم بی جان
ماہی نے بی جان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلام کیا تھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain