Birds don’t question happiness. They live it. When things are going well, they’re happy. It’s as simple as that. Knowing how not to worry - perhaps that is the beginning of happiness.”
نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری کہ خاوراں میں ہے قوموں کی رُوح تریاکی اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے بُری ہے مستیِ اندیشہ ہائے افلاکی تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن کہ تُو خودی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی
اک فقر سِکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری اک فقر سے کھُلتے ہیں اسرارِ جہاں گیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دِلگیری اک فقر سے مٹّی میں خاصیّتِ اِکسیری اک فقر ہے شبیّری، اس فقر میں ہے مِیری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیّری!
“عاقبت منزلِ ما وادیِ خاموشان است Then silence at last the valley of silence is our goal, حالیا غلغلہ در گُنبدِ افلاکِ انداز”! Beneath this vault of heaven let our deeds’ echoes roll!
حیراں ہے بُوعلی کہ میں آیا کہاں سے ہُوں رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کِدھر کو مَیں “جاتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو مَیں”
یہ آفتاب کیا، یہ سِپہرِ بریں ہے کیا! سمجھا نہیں تسلسلِ شام و سحَر کو مَیں اپنے وطن میں ہُوں کہ غریبُ الدّیار ہُوں ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و دَر کو مَیں کھُلتا نہیں مرے سفَرِ زندگی کا راز لاؤں کہاں سے بندۂ صاحب نظر کو میں
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
شہیدِ محبّت نہ کافر نہ غازی محبّت کی رسمیں نہ تُرکی نہ تازی وہ کچھ اور شے ہے، محبّت نہیں ہے سِکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی
واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے اُونچی ہے ثُریّا سے بھی یہ خاکِ پُر اسرار آغوش میں اس کی وہ تجلّی ہے کہ جس میں کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیّار ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہُوئی لبریز وہ نعرہ کہ ہِل جاتا ہے جس سے دلِ کُہسار!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain