اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحَر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مرّیخ، ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زُہرہ نے کہا، اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمکِ شب کور سے کیا ہم کو سروکار!
بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو، وہ دن کو نمودار
ترا تن رُوح سے ناآشنا ہے
عجب کیا! آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے رُوح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
فطرت مری مانندِ نسیمِ سحرَی ہے
My nature is like the fresh breeze of morn:
رفتار ہے میری کبھی آہستہ، کبھی تیز
Gentle sometimes, at other times strong;
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گُل کو
I give a velvet mantle to flower petals,
کرتا ہوں سرِ خار کو سوزن کی طرح تیز
And to prickly thorns, the sharpness of the needle.
ya ALLAH Madad..
نالندہ ترے عُود کا ہر تار ازل سے
تُو جنسِ محبّت کا خریدار ازل سے
تُو پِیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خُوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیرِ جہاں تیری رضا، دیکھ!
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنّت تری پنہاں ہے ترے خُونِ جگر میں
اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دُور سے گردُوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِ تخیّل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اَثرِ آہِ رسا دیکھ!
ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گُنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا، یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سُورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ
ایّامِ جُدائی کے سِتم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بِیم و رجا دیکھ!
جہانِ نَو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالمِ پِیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مُقامِروں نے بنا دیا ہے قِمار خانہ
ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں، لیکن جُدا جُدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مَرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
نہ تھا اگر تُو شریکِ محفل، قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مِرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر میء شبانہ
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نُمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
مِری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
مَیں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شُمار کرتا ہوں دانہ دانہ
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سُورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی!
غوّاصِ محبّت کا اللہ نِگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اُس موج کے ماتم میں روتی ہے بھَنْور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تُو شعلۂ سینائی، مَیں شعلۂ سینائی!
تُو شاخ سے کیوں پھُوٹا، مَیں شاخ سے کیوں ٹُوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذّتِ یکتائی!
یہ گُنبدِ مِینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہُوا راہی مَیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
aj me b match daikhon ga.
Insha'Allah.. ham jetain gay.
kNoCk KnOcK .. :_D

Man Janbaz'yaM..
...
BatooN BatooN Me..
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain