پروین شاکر میرے پاس سے جو گزرا ، میرا حال تک نہ پوچھا میں کیسے مان جاؤں کہ دور جا کہ رویا؟ فراز تیرے پاس سے جو گزرے تو جنون میں تھے فراز جب دور جا کہ سوچا تو زار زار روئے
یاد آتے ہیں ، اف گناہ کیا کیا محسن ایک محبت کر لی ، دوسرا تم سے کر لی
بہت شکایتیں آتی ہیں تمہارے گھر سے یوں سوتے ہوئے میرا نام نہ لیا کرو
حسرت دیدار بھی کیا چیز ہے صاحب وہ سامنے ہو توسلسل دیکھا بھی نہیں جاتا
انگلش میں شاعری عرض ہے گلی from the نکلا is عاشق of جنازہ زور و شور with very محبوبہ of اور from the door محبوبہ جھانکی بولی مر گیا حرام خور
کاش میں تیرے نام کا نقطہ ہوتا تم تم نہ رہتے اگر میں نہ ہوتا
مجھے بھی سکھا دو بھول جانے کا ہنر مجھ سے راتوں کو اٹھ اٹھ کہ رویا نہیں جاتا
ظلم اتنا نہ کر کہ لوگ کہیں تجھے دشمن میرا ہم نے زمانے کو تجھے اپنی جان بتا رکھا ہے
بڑی طلب تھی صنم کو ، بے نقاب دیکھنے کی دوپٹہ جو گرا تو ، کمبخت زلفیں دیوار بن گئی
اچھا خاصہ بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں اب میں اکثر ، میں نہیں تم ہو جاتا ہوں
لوگ لکھتے ہیں میرے اشک و لہو سے غزلیں تو نے تو اتنا بھی نہ سوچا کہ میں توتا کیوں ہوں
تیری غفلتوں کو خبر کہاں میرے حال دل پہ نظر کہاں تو جفا کی حد میں نہ آسکا، میں وفا کی حد سے گزر گیا
عزیز تر وہ مجھے رکھتا تھا، رگ جاں سے یہ بات سچ ہے، میرا باپ کم نہ تھا میری ماں سے
زبر'' نہیں ''زیر'' ہوجا'' کیونکہ آگے ''پیش'' ہونا ہے
اے دیکھنے والے میری مسکراہٹ پہ نہ جانا یہ تو پردہ ہے درد دل چھپانے کے لئے
کبھی دیکھ دھوپ میں کھڑے تنہا شجر کو ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے