آپ تو بتاتے تھے ہجر ایک نعمت ہے
قربتِ مسلسل میں اک ذرا سا وقفہ ہے
مستقل پڑاؤ میں بوریت سی رہتی ہے
ہجر اک سفر سا ہے
بس یہ مختصر سا ہے
ساتھ ہے ہمیشہ کا
ہجر چند گھڑی کا ہے
چٹکیوں میں گزرے گا کیونکہ وصل حائل ہے
آپ ساتھ ہو کر بھی ہجر سے نوازیں گے
یہ نہیں بتایا تھا
مجھ سے بھی چھپایا تھا
وہ نفرتوں کـے سوال کر کـے
محبتوں کا جواب مانگے
کہ میرے حصـے میں کانٹـے لکھ کر
مجھ سـے تازہ گلاب مانگـے
یہ چاہتوں کی کڑی مسافت
چلـے ہیں تنہا شکست خوردہ
کوئی تو میرا بھی درد جانـے
کوئی تو اس سـے حساب مانگے
میری تصویر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں
گھیر لیں مجھ کو سب آنکھیں میں تماشا تو نہیں
زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں
سب کے سب ہیں پریشاں مجھ سے
سب کا نقصان کر رہی ہوں کیا ؟
میری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو
کیا اداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے
تم پرندوں کے درختوں کے مصور ہو میاں
کس طرح سبزۂ پامال بنا پاؤ گے
سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو
آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے
جو مقدر نے مری سمت اچھالا تھا کبھی
میرے ماتھے پہ وہی جال بنا پاؤ گے
مل گئی خاک میں آخر کو سیاہی جن کی
میرے ہمدم وہ میرے بال بنا پاؤ گے
یہ جو چہرے پہ خراشوں کی طرح ثبت ہوئے
یہ اذیت کے مہ و سال بنا پاؤ گے
زندگی نے جو مرا حال بنا چھوڑا ہے
میری تصویر کا وہ حال بنا پاؤ گے
تو تغافل بھی کرے عشق بھی اور نفرت بھی
میں تیرے حصے میں اتنا تو نہیں آنے والی
مجھ سے ملنا ہے تو اک دن میری آنکھوں میں اتر
تُو مجھ سے میرا شہر، میرا نام، میرا حال نہ پوچھ
ربط رکھنا ہے اگر مجھ سے، عداوت کر لو
مجھ کو یہ پیار محبت کی ہوا راس نہیں
اتنا سا یاد رکھ مجھے
جیسے کسی کتاب میں
بیتے دنوں کے دوست کا
اک خط پڑا ھوا ملے
لفظ مٹے مٹے سے ھوں
رنگ اُڑا اُڑا سا ھو
لیکن وہ اجنبی نہ ھو
کیا تیرے ہاتھ بھی چاہت میں یہی کچھ آیا
پھول سوکھے ہوئے تحریر پرانی کوئی
گفتگو کے لمحوں میں
دیکھ ہی نھیں پاتے
ہم تمہارے چہرے کو
تم ہماری آنکھوں کو
آج ایسا کرتے ہیں
چشم و لب کو پڑھتے ہیں
بات چھوڑ دیتے ہیں
یہ جو پتھر کے ہو چکے ہیں اب
اپنے حصے کا رو چکے ہوں گے
جابجا دل کو لگانے سے کہاں بھولے گا
وہ شخص ہم کو بھلانے سے کہاں بھولے گا
ہاں کئی روز سے وہ یاد نہیں آیا مگر
وہ فقط یاد نہ آنے سے کہاں بھولے گا
اب یہ کیسی الجھن ھے
اب یہ کیسا جھگڑا ھے
بات تھی محبت کی
اور تم محبت پر
ایک ہی محبت پر
کب یقین رکھتے ہو
ایک ہم ہی تو الجھن تھے
ہم تو جا چکے جاناں
دل پہ بے وفائی کے
زخم کھا چکے جاناں
اب یہ کیسی الجھن ھے
اب یہ کیسا جھگڑا ھے
یہ اہلِ ہجر یہ راتوں کو جاگنے والے
یہ خود سے دور کہیں زندگی گزارتے ہیں
ہزار جذبوں سے معتبر ہے
اداس آنکھوں سے مسکرانا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain