وہ شخص اب مرے احباب میں نہیں شامل
مری شکایتیں اس شخص سے کرے نہ کوئی
تعلقات کو بس اس مقام تک رکھیئے
کسی کو چھوڑنا پڑ جائے تو مَرے نہ کوئی
آپ سے کیا توقعات رکھیں
آپ بھی صرف خوبصورت ہیں
دل یہ بھی چاہتا ہے ہِجراں کے موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر شبنم کے ہار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے اُس جانِ شاعری کو
کچھ شعر اپنے چُن کر ھم شاہکار بھیجیں
دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں
جب خواب ہی سارے جھوٹے ہوں
اور برگ تمنا سوکھے ہوں
جب زرد ہو موسم اندر کا
کیا پھول کھلائیں چہرے پر
پھر سے کوئ بگاڑ دے پھر سے سنوارنی پڑے
جس کی گزر رہی نہ ہو اس کو گزارنی پڑے
پوچھ نہ اسکا غم جسے وجہِ قرار دل ہو جو
کھینچ کے وہ شبیہِ جاں دل سے اتارنی پڑے
عشق فناۓ ذات ہے اسمیں نہیں ہے یہ رواج
منزلیں مل بھی جائیں اور مَیں بھی نہ مارنی پڑے
حالتِ دل ہو کیا کہ جب ایک صداۓ المدد
دل نہ پکارنے کا ہو اور پکارنی پڑے
عالمِ بے خودی سے تُو مجھ کو نہ ہوش دے کہ پھر
تجھ سے کلام کے لیے شکل ابھارنی پڑے
شکوہ کناں ہو کیوں کہ جب نام ہی اُن صفوں میں تھا
جن کو وفا کے کھیل میں زندگی ہارنی پڑے
ہماری اونگھ کبھی نیند تک گئی ہی نہیں
سو خواب دیکھنا تاحال ایک خواب ہی ہے
خراب رستے پہ تختی دِکھی تو رک کے پڑھی
لکھا تھا رستہ یہی ہے مگر خراب ہی ہے
تیری طلب اگر آسودگی ہے، رب راکھا
ہمارے پاس تو لے دے کے اضطراب ہی ہے
شب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں صحرا ہے کوئی
ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی
آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی
جانتی ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی
دکھ مجھے اسکا نہیں کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی
دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی
مستقل محبت کے قائل لوگ
موسمی لوگوں کے پیچھے پڑ کر
اپنے اندر کا موسم خراب نہیں کرتے
اس سماج کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو جانور بنا دیا ہے
سب لوگ ہمارا خوشی والا ورژن چاہتے ہیں اندھیرے ہمارے اپنے ہیں
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کر بچھڑتا رہا ہوں میں
تم مجھکو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں
تم جس زمیں پر ہو میں اسکا خدا نہیں
پس سر بہ سر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُرکار ہی رہو
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
جب میں تمہیں نشاط محبت نا دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نا دے اسکا
جب میرے سب چراغ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بیوفا کے ہیں
پھر مجھکو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
🥀 ___جون ایلیاء
ہر وہ چیز یا شخص جس کی وجہ سے آپ مسکراتے ہیں ، اسے چھپا کر (راز ) رکھیں۔
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سر و ساماں جلاتے جائیے
رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے
جون ایلیاء
ایک ہی شخص پہ مرکُوز ہے دُنیا میری
یعنی اِک شخص مُجھے ارض و سما جیسا ہے
جس دن آپ اندھیرے کی فطرت کو سمجھ جائیں گے اُسی دن آپ کی توجہ روشنی کی جانب مبذول ہو جاۓ گی
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں
اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
جیئے جاتے ہیں جیئے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
ہمارے پاس خدا کا دیا بہت کچھ تھا
فقط اِک تو نہ ملا تو غریب لگنے لگے
تمہارے نقش جو دل کو بہت لُبھاتے تھے
خمارِ عِشق جو اُترا عجیب لگنے لگے
جب آپکا اندرونی سکون غالب ہوتا ہے تو آپ اپنی انگلیوں کے درمیان سے گزرنے والی خوشگوار ہوا سے بھی محظوظ ہوتے ہیں
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain