ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کر بچھڑتا رہا ہوں میں
تم مجھکو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں
تم جس زمیں پر ہو میں اسکا خدا نہیں
پس سر بہ سر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُرکار ہی رہو
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
جب میں تمہیں نشاط محبت نا دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نا دے اسکا
جب میرے سب چراغ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بیوفا کے ہیں
پھر مجھکو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
🥀 ___جون ایلیاء
ہر وہ چیز یا شخص جس کی وجہ سے آپ مسکراتے ہیں ، اسے چھپا کر (راز ) رکھیں۔
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سر و ساماں جلاتے جائیے
رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے
جون ایلیاء
ایک ہی شخص پہ مرکُوز ہے دُنیا میری
یعنی اِک شخص مُجھے ارض و سما جیسا ہے
جس دن آپ اندھیرے کی فطرت کو سمجھ جائیں گے اُسی دن آپ کی توجہ روشنی کی جانب مبذول ہو جاۓ گی
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیئے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں
اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے
جیئے جاتے ہیں جیئے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں
ہمارے پاس خدا کا دیا بہت کچھ تھا
فقط اِک تو نہ ملا تو غریب لگنے لگے
تمہارے نقش جو دل کو بہت لُبھاتے تھے
خمارِ عِشق جو اُترا عجیب لگنے لگے
جب آپکا اندرونی سکون غالب ہوتا ہے تو آپ اپنی انگلیوں کے درمیان سے گزرنے والی خوشگوار ہوا سے بھی محظوظ ہوتے ہیں
اک حویلی تھی دل محلے میں
اب وہ ویران ہو گئی ہو گی
آپ تو بتاتے تھے ہجر ایک نعمت ہے
قربتِ مسلسل میں اک ذرا سا وقفہ ہے
مستقل پڑاؤ میں بوریت سی رہتی ہے
ہجر اک سفر سا ہے
بس یہ مختصر سا ہے
ساتھ ہے ہمیشہ کا
ہجر چند گھڑی کا ہے
چٹکیوں میں گزرے گا کیونکہ وصل حائل ہے
آپ ساتھ ہو کر بھی ہجر سے نوازیں گے
یہ نہیں بتایا تھا
مجھ سے بھی چھپایا تھا
وہ نفرتوں کـے سوال کر کـے
محبتوں کا جواب مانگے
کہ میرے حصـے میں کانٹـے لکھ کر
مجھ سـے تازہ گلاب مانگـے
یہ چاہتوں کی کڑی مسافت
چلـے ہیں تنہا شکست خوردہ
کوئی تو میرا بھی درد جانـے
کوئی تو اس سـے حساب مانگے
میری تصویر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں
گھیر لیں مجھ کو سب آنکھیں میں تماشا تو نہیں
زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں
سب کے سب ہیں پریشاں مجھ سے
سب کا نقصان کر رہی ہوں کیا ؟
میری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو
کیا اداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے
تم پرندوں کے درختوں کے مصور ہو میاں
کس طرح سبزۂ پامال بنا پاؤ گے
سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو
آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے
جو مقدر نے مری سمت اچھالا تھا کبھی
میرے ماتھے پہ وہی جال بنا پاؤ گے
مل گئی خاک میں آخر کو سیاہی جن کی
میرے ہمدم وہ میرے بال بنا پاؤ گے
یہ جو چہرے پہ خراشوں کی طرح ثبت ہوئے
یہ اذیت کے مہ و سال بنا پاؤ گے
زندگی نے جو مرا حال بنا چھوڑا ہے
میری تصویر کا وہ حال بنا پاؤ گے
تو تغافل بھی کرے عشق بھی اور نفرت بھی
میں تیرے حصے میں اتنا تو نہیں آنے والی
مجھ سے ملنا ہے تو اک دن میری آنکھوں میں اتر
تُو مجھ سے میرا شہر، میرا نام، میرا حال نہ پوچھ
ربط رکھنا ہے اگر مجھ سے، عداوت کر لو
مجھ کو یہ پیار محبت کی ہوا راس نہیں
اتنا سا یاد رکھ مجھے
جیسے کسی کتاب میں
بیتے دنوں کے دوست کا
اک خط پڑا ھوا ملے
لفظ مٹے مٹے سے ھوں
رنگ اُڑا اُڑا سا ھو
لیکن وہ اجنبی نہ ھو
کیا تیرے ہاتھ بھی چاہت میں یہی کچھ آیا
پھول سوکھے ہوئے تحریر پرانی کوئی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain