ایک چہرے سے اُترتی ہیں نقابیں کتنی
لوگ کتنے ہمیں ایک شخص میں مل جاتے ہیں
وقت بدلے گا اس میں بار پوچھوں گا اس سے
تم بدلتے ہو تو کیوں لوگ بدل جاتے ہیں
وہ ناراض ہوتے تو اُسے ہر قیمت پہ منا لیتے
جو تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتے تو اُسے منائیں کیسے
وہ نہ ملیں تو کیا ہوا یہ عشق ہے ہوس نہیں میں
اُنہی کا تھا اُنہی کا ہو وہ میرے نہیں تو نہ سہی
نہیں چاہیے سہارا کسی کا
میں نے تنہا جینا سیکھ لیا ہے
کوشش اتنی ہے کوئی روٹھے نہ ہم سے مگر
نظر انداز کرنے والوں سے ہم بھی نظر نہیں ملاتے
عجیب طرح کے انسان بستے ہیں تیرے شہر میں
اُنا میں مٹ تو جاتے ہیں لیکن محبت نہیں کرتے