ابھی لوٹ آ ، میرے گمشدہ۔ مجھے ناز ھے میرے ضبط کا مجھے خُوں رلُا ، میرے گمشدہ یہ نہیں کہ تیرے فراق میں ، میں اُجڑ گئی یا بکھر گئی ھاں محبتوں پہ جو مان تھا وہ نہیں رھا ، میرے گمشدہ تیرے التفات کی بارشیں جو میری نہیں تو بتا مجھے تیرے دشتِ چاہ میں کس لیے میرا دل جلا ، میرے گمشدہ ؟ گھنے جنگلوں میں گھری ھُوں میں بڑا گھپ اندھیرا ھے چار سُو کوئی اِک چراغ تو جل اٹھے ذرا مُسکرا ، میرے گمشدہ۔۔۔۔
روؤں گی اس دوران مرجانے والوں کو ہنسوں گی ان پر جن کو میں نے تمہارے لیے چھوڑ دیا تھا ،مبارکباد دوں گی شادی کی کئی کئی بچوں کی ماؤں کو اور سکول جاتے ہوئے بچوں کو روک کر ان سے پوچھوں گی کہ وہ کس کے بچے ہیں ،،میں یاد کروں گی اپنی کزنوں کے بچوں کے نام اور انکی شادی کی تاریخ اور دیکھوں گی انکی شادی میں بنی اپنی تصویروں کو مجھے دوبارہ یاد کرنے پڑیں گے مہینے اور دنوں کے نام مجھے سیکھنا پڑے گا زندگی کی پگڈنڈی پر بنا کسی سہارے کے چلنا سیڑھیاں اترنا بیساکھی پر لگنے والے میلے پر جاؤں گی دیا جلاؤں گی اس مزار پر جہاں ملنے کی دعا کرتی تھی سیاہ رنگ کا سوٹ پہن کر اپنی سیلفی لوں گی اور دیکھوں گی کہ میں کیسی لگ رہی تھی جب تم نے مجھے پہلی بار دیکھا میں یاد کروں گی خدا کو اور اپنے تمام دکھوں کو جب تم مجھے ۔۔۔
جب تم مجھے بھول جاؤ گے میں اپنے تمام ادھورے کام کروں گی صندوق میں سے گزرے ہوئے موسم کے بستر نکال کر دھو کر سکھاؤں گی ڈریسنگ ٹیبل کی دراز صاف کروں گی اور فالتو سامان کو کچرے کی ٹوکری میں پھینک دوں گی اپنی آنکھوں پر لگے ہوئے جالے اتاروں گی موبائل فون کا استعمال بڑھا دوں گی اور بھول جاؤں گی تمہارے نام کے لگائے گئے پاسپورڈز اور ایک گہری نیند سوؤں گی جب تم مجھے بھول جاؤ گے میں یاد کروں گی ان تمام ضروری کاموں کو جو میں تم سے باتوں میں مشغول ہونے کی وجہ سےکرنا بھول گئی تھی اونچی آواز میں غزلیں سنوں گی اور کان دھروں گی گلی میں ہونے والے اچانک شور پر دیواروں کی سرگوشی اور کواڑوں کی خاموشی پر خبر رکھوں گی اپنی بے خبری کی ......
یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا کہ جس کے ساتھ نہ تھا ہم سفر اسی کا رہا 😔 بہت سی خواہشیں سو بارشوں میں بھیگی ہیں میں کس طرح سے کہوں عمر بھر اسی کا رہا ...