نیندوں کا اِحتِساب ہُوا یا نہیں ہُوا
سچّا کِسی کا خواب ہُوا یا نہیں ہُوا
بے داغ کوئی شَکْل نظر آئی یا نہیں
آئِینہ بے نِقاب ہُوا یا نہیں ہُوا
لائی گئیں کٹَہرے میں کِتنی عدالتیں
قانون، لاجَواب ہُوا یا نہیں ہُوا
جو آج تک کِیا گیا احسان کی طرح
اُس ظُلم کا حِساب ہُوا یا نہیں ہُوا
اُس کے بھی دِل میں آگ لگی یا نہیں لگی
پتّھر بھی آب آب ہُوا یا نہیں ہُوا
پڑھتی ہے جِس کِتاب کو صَدیوَں سے زِندگی
ختْم اُس کا کوئی باب ہُوا یا نہیں ہُوا
قدر اہلِ روشنی کی بڑھی یا نہیں بڑھی
ذَرّہ بھی آفْتاب ہُوا یا نہیں ہُوا
اِنسانیّت سے رابطہ کرنے کے باب میں !
اِنسان، کامیاب ہُوا یا نہیں ہُوا
مُظفّؔر وارثی.
فاصلے نہ بڑھ جائیں فاصلے گھٹانے سے
آؤ سوچ لیں پہلے رابطے بڑھانے سے
دیکھ بھال کر چلنا لازمی سہی لیکن
تجربے نہیں ہوتے ٹھوکریں نہ کھانے سے
کارزار ہستی میں اپنا دخل اتنا ہے
ہنس دئے ہنسانے سے رو دئے رلانے سے
زخم بھی لگاتے ہو پھول بھی کھلاتے ہو
کتنے کام لیتے ہو ایک مسکرانے سے
ہر طرف چراغاں ہو تب کہیں اجالا ہو
اور ہم گریزاں ہیں اک دیا جلانے سے
چاند آسماں کا ہو یا زمین کا نصرتؔ
کون باز آتا ہے انگلیاں اٹھانے سے
نصرت صدیقی
آیا خیال جسم کے کھنڈرات دیکھ کر
کیسا حسِین شخص، اذیت نے کھا لیا 💔
کبھی کبھار خاموشی تھکن کی نشانی ہوتی ہے،
ہمیشہ سونا نہیں ہوتی۔۔
یہ وہ خاموشی ہے جو بولنا چاہتی ہے مگر تھک گئی ہوتی ہے، لفظوں سے لوگوں سے حالات سے۔۔۔
لہٰذا ہر خاموش شخص سمجھوتہ نہیں کرتا کبھی وہ بس تھکا ہوا ہوتا ہے۔۔۔
جن کو خاموشی سے پیار ہوتا ہے ان کی آدھی گفتگو ان کی آنکھوں میں ہوتی ہے اور باقی آدھی وہ پیغامات ہیں جو بھیجے نہیں گئے۔ ان کے دلوں میں آج بھی ہیں جنہیں کسی نے پڑھا ہی نہیں ہے۔
#hijrzada
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں، پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں، اب کہاں سے لاؤں اسے
احمد فرازؔ
میں تجھے چھوڑ کے آیا ہوں اُسی حوصلے سے
وہ کہ جس حوصلے سے جسم کو جاں چھوڑتی ہے
آؤ دیکھو میرے چہرے کے خد و خال کو اب
مان جاؤ گے محبت بھی نِشاں چھوڑتی ہے
علی قائم نقوی
کانچ آنکھوں میں چبھونا تو نہیں بنتا ہے
پھر وہی خواب پرونا تو نہیں بنتا ہے
جب کہ خود تو نے جدائی کو چنا اپنے لیے
پھر یہ ہر شب ترا رونا تو نہیں بنتا ہے
عین ممکن ہے ترا لمس کرامت کر دے
ورنہ پیتل کبھی سونا تو نہیں بنتا ہے
تو صدا دے تو نہ مڑ کر تجھے دیکھوں کیسے
کوئی پتھر مرا ہونا تو نہیں بنتا ہے
صرف اک تیری ہی مرضی کے ہے تابع یہ دل
سب کے ہاتھوں میں کھلونا تو نہیں بنتا ہے
کل کسی وقت یہی عشق کے تمغے ہوں گے
دل کے ہر داغ کا دھونا تو نہیں بنتا ہے
ہم نے مانا کہ کہانی ہے اسی کی لیکن
اس کا ہر باب میں ہونا تو نہیں بنتا ہے
ساجد رحیم
زندگی میں کم از کم ایک بار تو سبھی پچھتاتے ہیں"
یہ سچ ہے کہ ہم سبھی پچھتاتے ہیں
کبھی کسی جلد بازی پر، کبھی کسی تاخیر پر، کبھی کسی ہم ہمتی پر، کبھی بےجا دلیری پر، کبھی کسی فیصلے پر، کبھی کسی مصلحت پر اور کبھی تو پچھلی گزر چکی عمر پر،
کبھی یہ پچھتاوا محض پل بھر کا احساس ہوتا ہے اور کہیں یہ باقی ماندہ زندگی پر محیط ہو جاتا ہے ۔۔۔!!
#Syeda
مجھ کو نہیں قبول یہ دستور، معذرت
جب کہہ دیا تو مت کریں مجبور، معذرت!
میری انا کو آپ کے حکموں سے بیر ہے
دیکھیں جناب آپ سے بھرپور، معذرت!
ان لفظوں کی ادائیگی دشوار ہے مجھے
"تسلیم"، "جی"، "بجا"، "سہی"، "منظور" معذرت!
قربت بڑھا کے اپنی گھٹا لوں میں اہمیت؟
بہتر رہے گا مجھ سے رہیں دور، معذرت!
مجھ سے توقع آپ نہ رکھیے رجوع کی
خود غرض آپ ہیں، تو میں نہیں فضول، معذرت!
🙂🖤
بڑا یقین تھا مجھ کو _ میری محبت پر
بڑے یقین سے ہارا ہوں زندگی اپنی
Bara yaqeen tha mujh ko meri muhabbat par
Bare yaqeen se hara hoon _____ zindagi apni
#AseereIshq
#Yaqeen
#Muhabbat
#Zindagi
اُس سے بلا کی چاہت تھی دل کے قریب تھا
پر چھوڑنا پڑا وہ بہت ہی عجیب تھا
وہ روز چھوڑ جاتا تھا کچھ رنج چھیڑ کر
پھر اس پہ یونہی کہتا ہمارا نصیب تھا
وہ چاہتا تھا میں بس اُسی کی بنی رہوں
اُس کو تو میرا سایہ بھی مثلِ رقیب تھا
وہ پھول پھینکتا تھا مگر تِیر کی طرح
وہ بدمزاج شخص تو دل کا غریب تھا
میں خالی ہاتھ اپنے سفر پر روانہ تھی
تھاما تھا اُس نے ہاتھ کے جیسے حبیب تھا
ماریہ نقوی
انتخاب ۔۔ سبحان احمد
اتنا قریب آؤ کہ جی بهر کے دیکھ لیں
شاید کہ پهر ملو تو یہ ذوق نظر نہ ہو
یوں اترو میرے دل میں آنکهوں کے راستے
مجھ میں سما جاؤ نظر کو خبر نہ ہو
مدت ہوئی ملے نہیں اک دوسرے سے ہم
آج سب گلے مٹا دو کوئی شکوہ پهر نہ ہو
میرے سامنے بیٹهے رہو میں دیکهتا رہوں
رک جائے وقت کاش طلوعِ سحر نہ ہو
کرلو مجھ سے وعدہ میرے ہو بس میرے
جب ساتھ میرا دو تو زمانے کا ڈر نہ ہو
آئے ہو اب کہ جو تم تو اک شب قیام کر لو
شاید کہ پھر گزر ہو تو میرا گھر نہ ہو
ممکن ہے ترتیبِ وقت میں ایسا بھی لمحہ آئے
دستک کو تیرا ہاتھ اٹھے اور میرا در نہ ہو
فیض احمد فیض
ہے عقیدت ہمیں اس سے ہی یقیناً لیکن
شرط اتنی ہے کہ آنکھوں میں حیا ہو اس کے
کھل کے اظہار محبت نہ کرے چاہے وہ
بس محبت ہی نگاہوں سے بیاں ہو اس کے
✍️زہرہ مغل
کومل جوئیہ
قربت سے ناشناس رہے ، کچھ نہیں بنا
خوش رنگ ، خوش لباس رہے ، کچھ نہیں بنا
ہونٹوں نے خود پہ پیاس کے پہرے بٹھا لئے
دریا کے آس پاس رہے ، کچھ نہیں بنا
اب قہقہوں کے ساتھ کریں گے علاجِ عشق
ہم مدتوں اداس رہے ، کچھ نہیں بنا
جس روز بے ادب ہوئے ، مشہور ہو گئے
جب تک سخن شناس رہے ، کچھ نہیں بنا
اس شخص کے مزاج کی تلخی نہیں گئی
ہم محوِ التماس رہے ، کچھ نہیں بنا
پھر ایک روز ترکِ محبت پہ خوش ہوئے
کچھ دن تو بدحواس رہے ، کچھ نہیں بنا
گر جلوۂ جمال کی دل کو ہے آرزو
اشکوں سے چشم شوق چراغاں تو کیجیے
ہونا ہے درد عشق سے گر لذت آشنا
دل کو خراب تلخیٔ ہجراں تو کیجیے
اک لمحۂ نشاط کی گر ہے ہوس شمیمؔ
دل کو ہلاک حسرت و ارماں تو کیجیے
صفیہ شمیم
واسطہ حسن سے یا شدتِ جذبات سے کیا۔۔؟
عشق کو تیرے قبیلے یا تیری ذات سے کیا۔۔؟
میری مصروف طبیعت بھی کہاں روک سکی؟
وہ تو یاد آتا ہے، اس کو میرے دن رات سے کیا۔۔
پیاس دیکھوں یا کروں فکر؟ کہ گھر کچا ہے؟
سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا۔۔؟
جس کو خدشہ ہو کہ مر جائیں گے بھوکے بچے،
سوچئے۔۔! اس کو کسی اور کے حالات سے کیا ۔۔؟
آج اسے فکر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے،
کل جو کہتا تھا مجھے رسم و روایات سے کیا۔۔؟
#محسن نقوی
اے درد پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّا حل نہ ہُوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں، یا آپ دلِ بےتاب ہیں ہم
شادعظیم آبادی
یہ بھی نہیں کہ دست دعا تک نہیں گیا
میرا سوال خلق خدا تک نہیں گیا
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا
خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا
مصلوب ہو رہا تھا مگر ہنس رہا تھا میں
آنکھوں میں اشک لے کے خدا تک نہیں گیا
جو برف گر رہی تھی مرے سر کے آس پاس
کیا لکھ رہی تھی مجھ سے پڑھا تک نہیں گیا
فیصلؔ مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے
وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا
فیصل عجمی
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو
آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے
اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس
یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے
کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے
اپنی غزل قتیل وہ کوئل کی کوک ہے
جس کی تڑپ کو دور سے پہچان جائیے
قتیل شفائی
وہ پاس تھا تو زمانے کو دیکھتی ہی نہیں تھی
بچھڑ گیا تو ہوئیں پھر سے ۔۔ در بدر آنکھیں
محسن نقوی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain