ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
شیریں سخن کلام____ میرا تب کی بات تھی
اب آ ذرا قریب ____تجھے لفظوں سے مات دوں
ہم کو کیا کیا نا مُیسر تھا تیرے بعد مگر
دل نے پھر بھی تیری یادوں پہ قناعت کر لی
عبد الحمید عدم
یہ صِرف عِشق ہے جِس نے بِچھَڑنے والُوں کو
تمام عمر کسی رابطے میں رکھا ہے۔
🖤
راہ و رسمِ دوستی قائم تو ہے لیکن ،حفیظؔ،
ابتدائے شوق کی لمبی ، ملاقاتیں گئیں!
حفیظ جالندھری
میرا ذکر پڑھنے والے میرا راستہ نہ چُن لیں
سرِ ورق یہ بھی لکھنا، مجھے مات ہو گئی تھی
پروین شاکر
اب بھی دلکش ہے خدو خال سُنا ہے میں نے
خیر دیکھا نہیں، فلحال سُنا ہے میں نے
ایک ہی شخص کو چاہا ہے بڑی مدت تک
ایک ہی گیت کئی سال سُنا ہے میں نے
خون کے رنگ میں ترمیم تو ہو سکتی ہے
اشک کا رنگ فقط لال سُنا ہے میں نے
#Ak_____
#𝔸𝕓𝕕𝕦𝕝𝕝𝕒𝕙_𝕜𝕙𝕒𝕟
خطائیں عمر رفتہ کی ، سزائیں عمر حاضر کو
عجب دستور الفت ہے، کہاں کرنی کہاں بھرنی
جانے کب ہوگا تو پہلے سا میسر مجھ کو
جانے کب ہوگی جدائی کی عدت پوری
عجیب وَجۂ مُلاقات تھی مری اُس سے ,,,,
کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا ,,,,
منصورہ احمد ۔۔
خوش نویسی کے سوا کچھ نہیں آتا ہم کو
ہم تیرے نام کو لکھتے ہوئے مر جائیں گے ۔
کاتب مختار علی ✍️
ہیں لازم و ملزوم بہــــم حُسن و محبتــــــ
ہم ہوتــــے نہ طالب جو وہ مطلــــوب نہ ہوتا
جــــــرآت قلندر بخش
مرے ہم راہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
عدیم ہاشمی
تلخ لہجے پہ بھی حیرت نہیں ہوتی _ مجھ کو
اب تو دکھ دے تو اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
تیری ہر بات گوارہ تھی محبت میں ___ مگر
تجھ سے اب ویسی محبت نہیں ہوتی مجھ کو
عاصمہ فراز
دل کی وادی میں رہے قیام اس کے
میرے شعر و سخن رہے نام اس کے
نام اس کے کی ۔ جلاتے رہے مشعلیں
نامہ شوق سے پڑھتے رہے سلام اس کے
فاروق جب سے دیکھا ۔ اس دلنشیں کو
تب سے ابتک پھر ہیں رہے ۔ غلام اس کے
مسکرائے تو کھل اٹھتے ہیں سبھی پھول
کلیوں نے سیکھے سبھی ابتسام اس کے
ہائے شوق نظر ۔ کیا تجھ کو کہیں اب
رہی مضطر و منتظر صبح و شام اس کے
آنکھوں سے ۔ نشہ اب تک نہیں اترا فارق
جب سے پئیے ۔ انکھوں سے ۔ جام اس کے
عمرفاروق فارق
Umar Farooq
چاہتیں ، وقت ، وفا ، نیند ، بھروسہ ، غزلیں
ایسا کیا تھا جو ترے سر سے نہ وارا ہم نے
ایک خامی بھی تمھاری نہ بتائی کسی کو
دور رہ کے بھی بھرم رکھا تمھارا ہم نے____🖤
دیکھو ہماری آنکھ میں ویسی چمک نہیں
دیکھو ہمارا رنگ بھی ویسا نہیں رہا
آنکھوں سے خوش گمانی کی پٹّی اُتر چُکی
اب صاف دیکھتا ہُوں میں اندھا نہیں رہا
ہم نے بھی کب کی چھوڑ دی مَنزل کی جُستجو
یُوں بھی ہمارے پاؤں میں رستہ نہیں رہا
پہلے تو میری آنکھ سے اوجھل ہُوا وہ شخص
پھر اُس کے بعد ذہن میں چہرہ نہیں رہا
فیصل محمود
...ﯾﺎﺭ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮨﯿﮟ
..ﺑﺪﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﯿﮟ
..ﺯﻟﻒ ﻟﮩﺮﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺻﻨﻢ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ
..ﮐﭽﮫ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﯿﮟ
...ﺳﺎﺭﯼ ﻏﺰﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﺍ
..ﮐﯿﻮﮞ ﺟﻼﺋﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﯿﮟ
پل بھر میں اس نے ترکِ تعلق کی بات کی
برسوں کا یہ خلوص تو بے کار ہو گیا
ملبہ اٹھا کے رکھ دیا دل کی زمین پر
بت اس کا میری آنکھ میں مسمار ہو گیا
عاصمہ فراز ۔۔۔۔
دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا
یہ حوصلہ کہاں سے ستم گر میں آگیا
کیا حادثہ ہوا ہے کہ دل سا اسیرِ شب
بازیگرانِ صبح کے لشکر میں آگیا
پھیلا تو میرے قد کے برابر نہ تھا لباس
سِمٹا تو ایک چھوٹی سی چادر میں آگیا
راہِ عروجِ عشق میں دل ایسا تیز گام
کچھ یوں گرا زوال کی ٹھوکر میں آگیا
سچ بول کر فضول کا جھگڑا لیا ہے مول
یعنی کہ خواہ مخواہ کے چکر میں آگیا
خالد! جنونِ شوق کو بھی آسرا ملے
دامن تو خیر دستِ رفوگر میں آگیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain