بُھولی ہُوئی صَدا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
تُم سے کہِیں مِلا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
منزل نہِیں ہُوں ، خِضر نہِیں ، راہزن نہِیں
منزل کا راستہ ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
مَیں عِشق کا خُدا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
نغموں کی اِبتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
گُم صُم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں
مَیں اُن سے کہہ رہا ہُوں ،،، مُجھے یاد کِیجئے
ساغرؔ ،،، کِسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہُوئی ادا ہُوں ، مُجھے یاد کِیجئے
ساغرؔ صدیقی
رائیگانی سے کہیں بڑھ کے ہے رنجِ بے بسی
ڈھل رہے ہیں ہم ہمارے سامنے رکھے ہوئے
کچھ تعلق بھی نہیں، پھر بھی خفا ہُوں تُجھ سے
جانے کس مان پہ مَیں رُوٹھ گیا ہُوں تُجھ سے
مُجھے کم عُمرسمجھ کے مِری تضحیک نہ کر
مَیں محبت میں کئی سال بڑا ہُوں تُجھ سے
جس طرح دودھ میں گُھل جاتی ہے چینی، جاناں !
مَیں خیالوں میں اُسی طرح مِلا ہُوں تُجھ سے
گیند بن کر ترے پیروں میں پڑا ہوں کہ تُو کھیل
تُو سمجھتا ہے کہ مَیں کھیل رہا ہُوں تُجھ سے
میرے اجزا میں نہ مٹی ہے نہ پانی ہے نہ آگ
میرے پیکر کو پرکھ لے، مَیں بنا ہُوں تُجھ سے
اے چٹانوں کی طرح مُجھ کو دبانے والے !
دیکھ چشمے کی طرح پھوٹ بہا ہُوں تُجھ سے
میری رگ رگ تری رگ رگ سے جُڑی ہے، مِرے یار !
ظاہری طور پہ تو دُور کھڑا ہُوں تُجھ سے
اے اُداسی ! مَیں ادب اس لیے کرتا ہُوں ترا
غم کے جتنے بھی سبق ہیں، مَیں پڑھا ہُوں تُجھ سے
رحمان فارس
Muskan Shuja Wattoo
جو ستاتا ہے وہی دل میں جگہ پاتا ہے
محبت میں یہ نئی طرز کا ارماں دیکھا
ضبطِ غمِ فِراق کی مَجبُورِیاں نَہ پُوچھ
دِل میں کِسی کا نام لِـیا ، اَور رو دِئیے
slam
slam
good morning
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے میرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے۔۔
درویش طبیعت مجھے ___ وِرثے میں ملی ہے
میں ٹھیک، غلط، اچھا، بُرا، کچھ نہیں کہتا __!
اے نیک مَنْش میری نہیں _____ فکر کر اپنی
اُجڑے ہوئے لوگوں کو خدا کچھ نہیں کہتا _!
اتنے دن تُو آنکھ سے اوجھل رہا
ہم تری فرقت کے عادی ہو گئے
اب کہاں کا ہجر کاہے کا وصال
اب تو ہم وحشت کے عادی ہو گئے
نامعلوم
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھاۓ نہ بنے
اور چاہیں کہ چھپاٸیں تو چھپاۓ نہ بنے
ہاۓ بے چارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھکاۓ نہ بنے آنکھ اٹھاۓ نہ بنے
جگر مراد آبادی
بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خوش ہُوں اِس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں,,
جو مانگتے ہیں دعائیں عمر دراز کی!!!
انہیں بتا دو کے جینا کوئی مزاق نہیں
تو نے کیا کھول کے رکھ دی ہے لپٹی ہوئی عمر
تو نے کن آخری لمحوں میں، پُکارا مجھ کو ...★
شکستِ دل کا درد ہم بھی سہہ چکے ہیں!!!!!
لیکن محبت سے غموں کا علاج کچھ نہیں ملتا۔
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں
تھی کہاں ربط میں اُس کے بھی کمی کوئی مگر
میں اسے پیارا تھا پر جان سے پیارا تھا کہاں💔
بے سبب ہی نہیں مرجھائے تھے جذبوں کے گلاب
تو نے چھو کر غمِ ہستی کو نکھارا تھا کہاں🥀
بیچ منجھدار میں تھے اس لیے ہم پار لگے
ڈوبنے کے لیے کوئی بھی کنارا تھا کہاں ؟😢
آخر شب مری پلکوں پہ ستارے تھے کئی
لیکن آنے کا ترے کوئی اشارا تھا کہاں
یہ تمنا تھی کہ ہم اس پہ لٹا دیں ہستی
اے دل اس کو مگر اتنا گوارا تھا کہاں
🍁🖤
#hiba___writes
رات ہوگی تو چاند بھی دہائی دے گا
تمہیں خوابوں میں ایک چہرہ دکھائی دے گا
یہ محبت ہے ذرا سوچ کے کرنا اس کو
ایک آنسو بھی گرا تو سنائی دے گا
نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
جو شخص ساتھ نہیں اسکا عکس باقی ہے
اٹھا کے لے گئے دزدان شب چراغ تلک
سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے
گھٹا اٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے
الٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
مگر خرابۂ دل میں وہ شخص باقی ہے
فراز آئے ہو تم اب رفیق شب کے لئے
کہ دور جام نا ہنگام رقص باقی ہے
احمد فراز
"ہم جو آسانی سے حاصل ہو گئے
لوگ ناقدری پہ مائل ہو گئے"
گرچہ آمادہ تھے وہ تجدید پر
پھر پرانے کچھ مسائل ہو گئے
ہجر نے کڑوا کیا ہے تن بدن
ذائقے جتنے تھے زائل ہو گئی
ان سخی آنکھوں کا یہ وردان ہے
شاہ ان کے در پہ سائل ہو گئے
توڑ جاتے ہم سبھی رشتے مگر
ان کہے کچھ لفظ حائل ہو گئے
وار دشمن کا سہا ہے خیر سے
دوستی کے شر سے گھائل ہو گئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain