نگاہ اس کی ہمیں بولنے نہیں دیتی
تمام لفظ کسی آنکھ کے حصار میں ہیں
#تجھ سے بچھڑا ہوں تو رویا ہوں وگرنہ
رونے والوں کو میں فنکار کہا کرتا تھا۔
تاعمر محبت کی حسیں شام پہ ٹھہرے
ہم جیت کے ہارے بھی ترے نام پہ ٹھہرے
یخ بستہ ہواؤں کی نمی سانس میں لے کر
آزاد پرندے تھے ترے بام پہ ٹھہرے
پہلے تو ورق پر لکھی سادہ سی کہانی
پھر عشق کے ہاتھوں کسی الہام پہ ٹھہرے
کسی دن ہم بھی ڈوب جائینگے سورج کی طرح
پھر اکثر۔۔۔۔ تمہیں رُلائے گا ، یہ شام کا منظر۔۔!!
رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں
تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے
مجھ سے نظر نہ پھیر کہ برہم ہے زندگی
مجھ سے نظر ملا کہ طبیعت اداس ہے.
ملنا، بچھڑ جانا، سبھی کچھ عارضی ٹھہرا
وہ اک لمحہ، ملے جب دل، وہی بس قیمتی ٹھہرا
سمندر تھا وہیں موجود، صحرا بھی وہیں ٹھہرا
محبت میں کوئی چھاؤں، کوئی دھوپ میں ٹھہرا
کسی نے بھیک میں مانگی محبت شاہ ہو کر بھی
کسی نے بخش دی چاہت کسی کو اور سخی ٹھہرا
کسی نے کی بہت کوشش، مگر نہ بن سکا نایاب
کسی کا پیار سے تکنا ہی اکثر شاعری ٹھہرا۔۔۔!
نامعلوم
رسیلے ہونٹ گدرایا بدن اور چشم خوابیدہ
کوئی دیکھے اسے تو بے پیے سرشار ہو جائے
صہیب فاروقی
ٹھہرے تھے میرے ساتھ مگراس قدر نہیں
لمحے وصالِ یار کے بھی معتبر نہیں
پہلے پہل کا لمس تھا رگ رگ سے بولتا
پہلے پہل کی سنسنی بارِ دگر نہیں
گونجے خیالِ یار کی کوئی صدا کہاں
صحرائے دِل کے چار سو دیوار و در نہیں
حاصل ہوں کیا اسے کسی منزل کی قربتیں
اپنی نشاطِ روح سے جو با خبر نہیں
محدود دائرہ ہے بہت خواہشات کا
ایسا نہیں کہ میری دعا میں اثر نہیں
شاید ابھی نصیب میں ہے دھوپ دیکھنا
اس دشتِ آرزو میں کوئی بھی شجر نہیں
اثبات کا مقام ہے اور دلبری کی شام
مانا کسی طرح بھی مرا دل مگر نہیں
ٹھہروں تو ہو گماں کہ کوئی ساتھ ساتھ ہے
چلنے پہ یوں لگے کہ کوئی ہم سفر نہیں
اس کی رفاقتوں پہ مجھے آئے کیوں یقیں
وہ شاذیہ قریبِ رگِ جاں اگر نہیں
شازیہ اکبر
تاعمر محبت کی حسیں شام پہ ٹھہرے
ہم جیت کے ہارے بھی ترے نام پہ ٹھہرے
یخ بستہ ہواؤں کی نمی سانس میں لے کر
آزاد پرندے تھے ترے بام پہ ٹھہرے
پہلے تو ورق پر لکھی سادہ سی کہانی
پھر عشق کے ہاتھوں کسی الہام پہ ٹھہرے
آنکھ نے رات جب ایک چاند مکمل دیکھا
پھر سمندر کو بھی ہوتے ہوئے پاگل دیکھا.!!
رات پھر دیر تلک کی تیری باتیں خود سے
رات بھر سامنے چہرہ تیرا پل پل دیکھا.!!
آج یادوں کی گھٹا ٹوٹ کے برسی دل پر
آج ہم نے بھی برستا ہوا بادل دیکھا.!!
حافظہ چھین لیا ہم سے غمِ دنیا نے
آج ہم بھول گئے اس کو جسے کل دیکھا.!!
ایک وہ تھی کہ بہت ہنستی تھی ناصر
آج اس کی بھی آنکھوں سے بہتا کاجل دیکھا.!!
ناصر کاظمی
اکتفا کر لیا بس دیکھتے رہنے پہ تجھے!!!!!!!!
ورنہ تُو جس کا مقدر ہو وہ کیا کچھ نہ کرے
دوسری بار بھی پڑ جائے اگر کچھ کرنا!!!
آدمی پہلی محبت کے سوا کچھ نہ کرے۔
ﺗﺘﻠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﻟﮩﺮﺍﺗﮯ ھﻴﮟ , ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺍُﻣﯿﺪ ﻟﻴﮯ
ﺍﮎ ﺩﻥ ﺧﻮﺷﺒﻮ ھﻮ ﺟﺎﺗﮯ ھﻴﮟ , ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ
امجد اسلام امجد
دل کی خاموشی سے سانسوں کے ٹھہر جانے تک
یاد آئے گا مجھے وہ شخص مر جانے تک!!!!!!
اس نے الفت کے بھی پیمانے بنا رکھے تھے
میں نے چاہا تھا اسے حد سے گزر جانے تک!!!!!!
🔴🟠🔵🟡🟣🟢
سارے گناہ اب مِرے دامن میں ڈال کر
خوش ہو رہا ہے شہر میں پگڑی اُچھال کر
اُس شہر کے امیر کو مر جانا چاہیے
بچے سُلائے ماں جہاں پتھر اُبال کر
پامال میّتوں پہ تو بنتا ہے مرثیہ
مجھ کو گلے لگا مِرے دُکھ کا ملال کر
سچ بولنے پہ کُفر کا فتویٰ لگا میاں
لے آ کتاب سے کوئی آیت نکال کر
ٹکڑوں پہ پلنے والے مجھے بھونکنے لگے
اب سوچتا ہوں کیا ملا کُتوں کو پال کر
مجھ کو پُکارتی رہی پیچھے سے، بدچلن
دُنیا پہ تھوک آیا ہوں گالی نکال کر
کاسے میں لے کے پھرتا ہے دُنیا یہ بادشاہ
آتا نہیں یقین تو بابا سوال کر
یہ تتلیوں کے روپ میں بھنورے ہیں اِس لئے
رکھنا بدن کی خوشبو کو گڑیا سنبھال کر
میثم علی آغا
بات کرتے کرتے اکثر چُپ سا ہو جاتا ہے وہ
جب اچانک ذکر تیرا چھیڑ دیتا ہے کوئی
ایک غزل تیرے لیے ضرور لکھوں گی
بے حساب اس میں تیرا قصور لکھوں گی
تو گفتار کا ماہر تو کردار کا ماہر
پھرحسن کو تیرا غرور لکھوں گی
ٹوٹ گۓ بچپن کے تیرے سارے کھلونے
اب دلوں سے کھیلنا تیرا دستور لکھوں گی
رہا عشق کا دعوی تجھے تمام عمر
وفا کی دہلیز سے تجھے مفرور لکھوں گی
خودساختہ جو ہے تیرا جداٸ کا فیصلہ
ایسے ہر اقدام کو نا منظور لکھوں گی
ہمیں کہنے کی عادت نہیں لکھنے کا شوق ہے
جذبوں کو اپنے کلام کی تاثیر لکھوں گی
تیرا وجود میرا وجود مجھے ایک سا لگا
پھر تجھے میں خود سے بہت دور لکھوں گی🖤
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
کہ ایک نعش کے مانند شہر پھیل گیا
نہیں گرفت میں تا حد خاک کا منظر
سمٹ گئیں مری بانہیں کہ دہر پھیل گیا
تجھے قریب سمجھتے تھے گھر میں بیٹھے ہوئے
تری تلاش میں نکلے تو شہر پھیل گیا
میں جس طرف بھی چلا جاؤں جان سے جاؤں
بچھڑ کے تجھ سے تو لگتا ہے دہر پھیل گیا
مکاں مکان سے نکلا کہ جیسے بات سے بات
مثال قصۂ ہجراں یہ شہر پھیل گیا
بچا نہ کوئی تری دھوپ کی تمازت سے
ترا جمال بہ انداز قہر پھیل گیا
خلاف شرط انا تھا وہ خواب میں بھی ملے
میں نیند نیند کو ترسا مگر نہیں سویا
خلاف موسم دل ہے کہ تھم گئی بارش
خلاف حرمت غم ہے کہ میں نہیں رویا 😊
قافِلے مَنزِلِ مَہتاب کی جانِب ہیں رَواں
مِری راہوں میں تِری زُلف کے بَل آتے ہیں
مَیں وہ آوارۂ تَقدِیر ہُوں یَزداں کی قَسَم
لَوگ دِیوانہ سَمَجھ کَر مُجھے سَمجھاتے ہیں
ساغرؔ صدیقی
بارہا تُجھ کو بتایا ھے تیرے بِن مُجھ کو
زِندگی بوجھ لگے ، درد رواں لگتا ھے!!!!
بولتا ہُوں میں یہاں لوگ تُجھے دیکھے ہیں
تُو میری بات سے اِس طرح عیاں لگتا ھے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain