نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام سے فرمایا: میری اُمّت مجھ پر ایسے پیش کی گئی جیسے حضرتِ آدم علیہ السَّلام پر پیش کی گئی تھی تو میں نے جان لیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ بات جب منافقین تک پہنچی تو انہوں نے کہا: مَعَاذَاللہ محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) گمان کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کون ان پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرےگا حالانکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں جانتے۔
اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئیاللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔(پ 4،اٰل عمرٰن:179
حضرت عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں نیز وہ علی تمام اہل ایمان کے دوست و مددگار ہیں۔ (ترمذی)
علی مجھ سے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ارشاد گرامی دراصل کمال قرب وتعلق اخلاص ویگانگت اور نسب ونسل میں باہم اشتراک سے کنایہ ہے وہ (علی) تمام اہل ایمان۔۔۔۔ ان الفاظ میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے (اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ 55) تمہارے دوست ومدد گار تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں جو اس طرح نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں کہ ان میں خشوع ہوتا ہے۔
جو آدمی کسی بھلائی کا باعث اور ذریعہ ہوگا اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس بھلائی پر عمل کرنے والے کو، لیکن ہدایت و راستی کی طرف بلانے والے کو جو ثواب ملے گا اس کی وجہ سے اس کی پیروی کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی، کیونکہ اطاعت کرنے والوں کو جو ثواب ملے گا اور ان کے عمل صالح بنا پر ہوگا اور جو ثواب و بھلائی کی طرف بلانے والے کو ہوگا وہ اس کی دعوت و تبلیغ کی بناء پر ہوگا۔ یہی حال ان لوگوں کے گناہ کا ہے جو لوگوں کو غلط عقائد و اعمال کے طرف بلاتے ہیں اور خلاف شرع طریقہ پر عوام کو چلاتے ہیں
اگر کوئی جھوٹ نہ بولتا ہو لیکن اس کی عادت یہ ہے کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق و تفتیش کے اسے نقل کردیتا ہے اور لوگوں میں اسے مشہور کردیتا ہے تو جھوٹ بولنے کے یہی بہت ہے، کیونکہ سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرلینا اور بغیر تحقیق کے اس کو پھیلا دینا جھوٹ کا پہلا زینہ ہے، جو آدمی ایسی عادت میں مبتلا ہوگا وہ یقینا جھوٹ کی لعنت میں گرفتار ہوگا کیونکہ وہ جو کچھ سنتا ہے اس میں سب سچ نہیں ہوتا کچھ جھوٹ بھی ہوتا ہے اور جب وہ سچ کے ساتھ جھوٹ کو نقل کرتا ہے تو وہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔ دراصل اس کا مقصد اس بات سے منع کرنا ہے کہ جس چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو اور اس کی صداقت کا علم نہ ہو تو اسے بیان کرنا یا اس کی تشہیر کرنا نہیں چاہیے۔
کسی بھی سوچ یا خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کے انجام پر نظر کرلی جائے تو انجام کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی عاقل شخص اس سوچ یا خواہش پر عمل پیرا ہونے یا اسے ترک کرنے کا فیصلہ بآسانی کر سکتا ہے مثلاً قتل کا انجام پھانسی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا انجام ذلت و جرمانہ پیشِ نظر ہو تو آدمی ان جرائم سے بچ جاتا ہے۔ دنیاوی اُمور کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اخروی معاملات میں بھی اسی اصول کو زندگی کا حصّہ بنائے تاکہ نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی طرف طبیعت بہ سہولت مائل ہو جائے
رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگو (یعنی گزشتہ امتوں میں) سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ جب اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے ؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہوا اس سے پھر کہا گیا کہ اچھی طرح سوچ لے اس نے کہا کہ مجھے قطعًا یاد نہیں آ رہا ہے ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں دنیا میں جب لوگوں سے خریدوفروخت کے معاملات کیا کرتا تھا تو تقاضہ کے وقت یعنی مطالبات کی وصولی میں ان پر احسان کیا کرتا تھا بایں طور کہ مستطیع لوگوں کو تو مہلت دے دیتا تھا اور جو نادار ہوتے ان کو معاف کردیتا تھا (یعنی اپنے مطالبات کا کوئی حصہ یا پورا مطالبہ ان کے لئے معاف کردیتا تھا) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسی عمل سے خوش ہو کر اس کو جنت میں داخل کردیا (بخاری ومسلم)
گناہوں سے بچنے کا علاج
گناہوں سے بچنے کا ایک آسان علاج یہ ہے کہ ہر چیز میں ضرورت پر قناعت کی جائے یعنی جو ضروری اور حد ضرورت یہ ہے کہ اتنی غذا جو بھوک ختم کرنے کے لئے ضروری ہو اتنا کپڑا جس سے ستر پوشی ہو سکے، اتنا مکان جو گرمی سردی سے بچا سکے اور اتنے برتن باسن جو ضروری ہوں اور ایک بیوی۔ لہٰذا یہ جان لینا چاہئے کہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے اور مباح میں وسعت اختیار کرنے کی وجہ سے انسان ان چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے جو مشتبہ اور مکروہ ہوتی ہیں۔ اور جب وہ مکروہات میں مبتلا رہتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ حرام چیزوں کا ارتکاب بھی ہونے لگتا ہے اور یہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں اسلام کی حد تو ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کفر و آگ کا میدان شروع ہوجاتا ہے نعوذ باللہ منہ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain