حضرت زربن حبیش (تابعی) کہتے ہیں کہ سیدنا علی نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا (یعنی اگایا) اور ذی روح کو پیدا کیا درحقیقت نبی ﷺ نے مجھ کو یقین دلایا تھا کہ جو (کامل) مؤمن ہوگا وہ مجھ سے (یعنی علی سے) محبت رکھے گا اور جو منافق ہوگا وہ مجھ سے عداوت رکھے گا۔ (مسلم)
حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ جنت میں ( خوب) کھائیں پئیں گے، لیکن نہ تو تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ پھریں گے اور نہ ناک سنکیں گے۔ یہ سن کر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ( جب جنتی لوگ پاخانہ نہیں پھریں گے، تو پھر کھانے کے فضلہ کا کیا ہوگا ( اور اس کے اخر اج کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کھانے کا فضلہ ڈکار اور پسینہ ہوجائے گا جو مشک کی خوشبو کی مانند ہوگا اور جنتیوں کے دل میں تسبیح وتحمید یعنی سبحان اللہ الحمد للہ کا ورد اور ذکر الہٰی ( اس طرح) ڈال دیا جائے گا ( کہ وہ ان کی عادت ومعمول بن جائے گا) جیسے سانس جاری ہے۔ ( مسلم)
رسول کریم ﷺ نے فرمایا لوگ اس وقت تک ہرگز ہلاک و برباد نہیں ہوں گے جب تک کہ ان سے بہت زیادہ گناہ اور برائیاں صادر ہونے لگیں گے ۔ (ابو داؤد)
برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو اس آیت میں اعلیٰ اخلاقی قدر اور معاشرتی زندگی کے سکون و اطمینان کا راز بتایا گیا ہے کہ تم برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو مثلاً غصے کو صبر سے ، لوگوں کی جہالت کو بُردباری سے اور بدسلوکی کو عفو و درگزر سے کہ اگر کوئی برائی کرے تو اسے معاف کردو۔ اِس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن دوستوں کی طرح تجھ سے محبت کرنے لگیں گے ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ میں اس خوبصورت اخلاق کے اعلیٰ نمونے روشن ستاروں کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب غزوۂ احد میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے والے مبارک دانت شہید([1])ہوئے اور روشن چہرہ لہو لہان ہوگیا تو ان کافروں کے خلاف دعا کی عرض کی گئی لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے
پیارے اسلامی بھائیو! فی زمانہ مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جنہیں گناہوں سے رُکنے، توبہ کرنے اور شریعت کے اَحکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو یہ جواب دیتے ہیں کہ ابھی تو بہت عمر پڑی ہے۔ اپنی خواہشات کی پیروی میں مشغول ہوکر موت کی یاد سے غافل اور توبہ میں تاخیر کرنے والے شخص کے بارے میں امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایسے شخص سے کہا جائے کہ تیری مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ جب اس سے کہا جائے فلاں درخت کو جڑوں سے اکھیڑ دو تو وہ کہے کہ یہ درخت بہت مضبوط ہے اور میں بہت کمزور ہوں، اب تو اسے اُکھیڑنا میرے بس کی بات نہیں البتہ آئندہ سال میں اسے اکھیڑ دوں گا۔ ذرا اس احمق سے پوچھئے کہ کیا اگلے سال وہ درخت اور مضبوط نہیں ہو چکا ہوگا اور تیری کمزوری مزید بڑھ نہ چکی ہو گی؟ بس یہی صورتِ حال خواہشات کے درخت کی ہے جو روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہو
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو اللہ نے انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں اندھی کردیں ۔ تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ دلوں پر ان کے تالے لگے ہوئے ہیں
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ: یہ وہ لوگ ہیں ۔} یعنی یہ فساد پھیلانے والے وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا تو اس کااثر یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وعظ و نصیحت سننے سے بہرا کردیا اور حق کی راہ دیکھنے سے ان کی آنکھیں اندھی کردیں اس لئے اب وہ حق راستے کی طرف ہدایت حاصل نہیں کر سکتے
لِكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ:
تاکہ تم اس پر غم نہ کھاؤ جو تم سے جاتی رہے۔} یعنی تمہیں پہنچنے والی مصیبتیں لوحِ محفوظ میں لکھ دینے کی حکمت یہ ہے کہ دنیا کا جو ساز و سامان تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے تم ا س پر غم نہ کھاؤ اور دنیا کا جو مال و متاع اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیاہے تم اس پر خوش نہ ہو اور یہ سمجھ لو کہ جو اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمایا ہے ضرور ہونا ہے ،نہ غم کرنے سے کوئی ضائع شدہ چیز واپس مل سکتی ہے اور نہ فنا ہونے والی چیز اِترانے کے لائق ہے، تو ہونا یہ چاہیے کہ خوشی کی جگہ شکر اورغم کی جگہ صبر اختیا ر کرو ۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain