چوتھا طریقہ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رات لوگ خصوصی اہتمام کے ساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت اور دعا کےلئے جاتے ہیں۔
پانچواں طریقہ جو زیادہ معروف ہے وہ اس دن روزہ رکھنا اور رات کو عبادت و ذکر کرنے کا طریقہ ہے۔
ان پانچوں طریقوں کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ ان میں سے کجھ تو خرافات کے زمرے میں آتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نصف شعبان کی اس را ت کو سرے سے اسلامی تہوار کہا ہی نہیں جاسکتا اور اسے عیدین یا حج وغیرہ کی شکل دینا ہی غلط ہے۔
اور پھر یہ حلوہ پکانے اور کھانے ’آتش بازی کرنے اور گھروں کو سجانے کی رسمیں تو یوں بھی کسی اسلامی تہوار کا حصہ نہیں۔ یہ وہ خود ساختہ رسومات ہیں جو یا تو بعض مذہبی پیشواؤں نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے جاری کیں اور یا پھر مسلمانوں نے ہندوؤں سے مستعار لے لی ہیں اور
سورہ دخان میں ہے کہ
﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةٍ مُبـٰرَكَةٍ. ﴿٣﴾. سورةالدخان یعنی ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا۔یہ خیال درست نہیں ہے کہ سورہ دخان میں مراد شعبان کی ۱۴۔۱۵ کی درمیانی شب ہے کیونکہ معتبر تفاسیر میں اس سے مراد لیلۃ القدر ہی لی گئی ہے۔جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں اس کے مختلف طریقے رائج ہیں:پهلا یہ کہ اس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے (حلوہ وغیرہ) پکائے جاتے ہیں اور بانٹے جاتے ہیں اور پھر خود بھی بیٹھ کر اسے مزے سےکھاتےہیں ۔دوسرا یہ کہ آتش بازی کی جاتی ہے اور گولہ بارود خوب استعمال کیا جاتاہے۔
تیسرا طریقہ کچھ لوگوں کے ہاں یہ بھی مروج ہے کہ اس رات کے استقبال کے لئے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے اور انہیں خوب سجایا جاتاہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس دن مرے ہوئے لوگوں کی روحیں واپس آتی ہیں
شب براءت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
الحمد لله،
اللہ کا فرمان ہے۔
سخت مشقت کر رہے ہونگے، تھکے جاتے ہونگے، شدید آگ میں جھلس رہے ہونگے۔ (سورۃ غاشیہ # ۳،۴)
اور جو اِس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔ (سورۃ الاسراء # ۷۲)
برصغیر پاک و ہند میں اس رات کو شب براءت کے علاوہ شب قدر بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث میں اس رات کے بارے میں شب برات یا شب قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں ۔ بعض روایات میں اس رات کا جو ذکر آیا ہے وہ نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے اور ویسے بھی شب قدر اورشب برات سےمراد لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔
سورہ القدر میں فرمایا:
﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةِ القَدرِ ﴿١﴾... سورةالقدر
کہ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔
🗯👇🏻
👇🏻
👇🏻
..✅سنہری موقع ہر رات میں ✅..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات (عرش سے) آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ،
اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے
اور فرماتا ہے کہ مجهہ سے کوئ دعا مانگنے والا ہے کہ میں اس کی دعا پوری کروں ، {مجھے کون بلاتا ہے کہ میں اسے جواب دوں}
مجھ سے کوئ مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں ،
مجھ سے کوئ مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟“
🌴☘صحیح بخاری شریف 7494🌴☘
”نصف شعبان کی رات سال بھر میں پیدا ہونے والے اور مرنے والوں کے نام نوٹ کیے جاتے ہیں اور لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور اسی رات ان کا رزق بھی اترتا ھے.”
(حوالہ: فضائل الاوقات رقم: 26).
⭕تحقیق :یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں نضر بن کثیر سخت ضعیف راوی ہے، اور اس روایت سے استدلال جائز نہیں ہے-
👈 معلوم ہوا کہ 15 شعبان{دن اور رات} کی عبادت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں.
تمام روایتیں ضعیف اور من گھڑت ہیں.
اور ایسی صورت میں یہ روایتیں قابل قبول نہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرنا جائز ہے.
🚫 چنانچہ پندرھویں شعبان منانا بدعت ہے. اور ہر بدعت گمراہی ہے. اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے. تو ہمیں اس سے بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانا چاہیے.
اللہ تعالی ہمیں صحیح سنت پہ عمل کرنے کی توفیق بخشے . آمین
فَأَغْفِرَ لَهُ أَلاَ مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ أَلاَ مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ أَلاَ كَذَا أَلاَ كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ ”*
”جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس میں قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو. اس رات اللہ سورج غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے: کیا کوئی بخشش مانگنے والا جسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے جسے روزی دوں؟ کیا کوئی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے کہ اسے عافیت عطا کروں؟
(حوالہ: ابن ماجہ رقم الحدیث 1388).
⭕تحقیق: اس روایت میں ابوبکر ابن ابی سبرة کذاب راوی ہے، دیکھیے تقریب التہذیب 7973 اور ابراہیم بن محمد سخت ضعیف ہے.
گویا یہ روایت موضوع (جھوٹ) درجہ کی ہے اور بالکل استدلال کے قابل نہیں.
6⃣ ”نصف شعبان کی رات سال بھر میں پیدا ہونے والے اور مرنے والوں کے نام نوٹ کیے جاتے ہیں اور لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے
4⃣ اسی طرح ایک روایت ہے: ”جب شعبان کی پندرھویں رات آتی ہے تو اللہ تعالی اپنی مخلوق پر نظر ڈال کر مومنوں کو بخش دیتا ہے. کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ پروروں کو ان کے کینہ کی وجہ سے (ان کے حال پر) چھوڑ دیتا ہے… الخ
(حوالہ: فضائل الاوقات رقم 23)
⭕تحقیق :یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اسکا بنیادی راوی احوص بن حکیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے،
ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے التقریب التہذیب 290 میں کہا “ضعیف الحفظ” اس لیے اس روایت سے استدلال جائز نہیں.
5⃣ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم: (إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا. فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ أَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ
بالوں سے زیادہ لوگوں کی بخشش کرتا ہے.
(حوالہ: جامع ترمذی، الصوم، حدیث 739)
⭕تحقیق :امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسکو ضعیف قرار دیا
اور امام بخاری سے بھی ضعیف قرار دینے کو نقل کیا،
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسکو ضعیف کہا.
3⃣ عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ قَال:
(إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلاَّ لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ)
اللہ تعالٰی نصف الشعبان کی رات اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے پھر مشرک اور مسلمان بھائی سے دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کو بخش دیتا ہے.
(حوالہ: ابن ماجہ حدیث نمبر: 1390)
⭕تحقیق: یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند کے اکثر راوی ضعیف ہیں.
1⃣ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان میرا اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے.
⭕تحقیق: یہ روایت من گھڑت ہے، حافظ سخاوی نے اسے مسند الفردوس کی طرف منسوب کیا، اسکی سند حسن بن یحیی الخشنی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے.
الشیخ البانی رحمہ اللہ نے اسکو السلسلہ الضعیفہ جلد 8 صفحہ 222 حدیث 3746 میں من گھڑت قرار دیا ہے.
2⃣ عَنْ عَائِشَةَ عن رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلمَ *” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرہ شعبان کو آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
(سورةالدخان: 3-4)
ترجمہ: بيشک ہم نے اس قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ہم ہی ڈرانے والے ہیں. اس رات میں ہر حکمت والا کام طے کیا جاتا ہے.
مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ تقدیروں کے فیصلے لیلة القدر میں ہوتے ہیں جس میں قرآن نازل ہوا.
اور قرآن کریم رمضان میں نازل ہوا
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيَ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ)
(سورةالبقرة: 185).
✳ چوتھی بات :
پندرھویں شعبان کو منانا یا خصوصی طور پر عبادت کرنا بهی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں.
👈 تفصیل کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :
*SHABAAN SE MUTA-ALIQ ZAEEF AUR MAOZU REWAYAAT*
*شعبان سے متعلق ضعیف اور موضوع روایات*
〰〰➰〰〰➰〰〰
🌕 شب برات كی حقیقت
Shabb-e-brat ke hqeeqat
✳ پہلی بات :
15 شعبان کا نام "شب برات" صرف برصغیر Subcontinent میں جانا جاتا ہے جس کا عرب ممالک خصوصاً اسلام کے سرچشمہ (مکہ مدینہ) میں کوئی وجود نہیں ہے.
✳ دوسری بات :
"شب برات" فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے تقدیروں کی رات. اگر عربی میں اس کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے (لیلة القدر). اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ لیلة القدر رمضان میں ہے نہ کہ شعبان میں.
مذکورہ بالا دونوں باتوں سے معلوم ہوا کہ 15 شعبان کو "شب برات کا نام دینا ہی بے بنیاد اور غلط ہے.
✳ تیسری بات :
اس رات کے بارے یہ عقیدہ رکها جاتا ہے کہ اس میں سال بھر کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں. قرآن وسنت کی روشنی میں یہ عقیدہ بهی سراسر غلط ہے. ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain