یعنی جو حافظ لوگ ھے وہ گھر میں خوب لمبی کرکے پڑھا کرے یعنی جس قرآن یاد ھے رات کہ آاخری پہر آگر پڑھے سحری تک تو بھت افضل ھے۔ اور جسکو نھی یاد تو باجماعت کیا کریں۔
باجماعت قیام اللیل کروائی۔وہی سنت زندہ کیا ۔۔یہ نھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بس 20 ھی پرھنی ھے یا 20رکعت نافذ کروائیے ۔ غور کیجئے خدارا بھت واضح الفاظ ھے اس حدیث کہ۔پہر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جو پڑہ رہے ھیں اس سے بہتر وہی نماز ھے جو لوگ رات کو اٹھ کر آخری پہر میں پڑھتے ھیں۔اور خود عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اس پر تھا وہ یہاں صرف وزٹ کیلے آے تھے۔اور حدیث دیکھے راوی کھتا ھم نے بھت دنوں بعد مسجد نبوی کا پہر چکر لگایا۔۔ تو اس بات پر بھی فتوی ھے کہ مسجد میں ایک امام کے پہیچے قیام اللیل جائز ھے بلکل جائز ھے پر افضل نہی ھے۔ کیونکہ نفل نماز گھر میں پڑھنے بھتر اور افضل ھے۔۔ یہ بھی ثابت ھے حدیث سے۔ بھت لمبی گفتگو ھے اس پر بھر حال دونوں طرح کر سکتے ھیں۔۔
قیام رمضان کے باب میں صحیح البخاری میں ھے حدیث نمبر 2010 ھے۔عبدالرحمن عبدالقاری فرماتے کہ ایک رات میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد نبوی میں آیا تو دیکھا اکیلے اکیلے اور بعض لوگ ٹولیوں کی شکل میں مختلف جگھوں میں نماز پڑھ رھے تھے تو انھیں دیکھ کر عمر فاروق رضی اللہ عنھ نے فرمایا کیا ھی اچھا ھوگا آگر ان لوگوں کو ایک امام کے پہیچے کھڑا کر دوں۔پہر انھوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قیام اللیل رمضان کر وائے۔ پہر یہی تابعی کھتے ھیں میں کافی دنوں بعد پہر عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا وہاں تو لوگوں کو باجماعت دیکھ کر عمر رضی اللہ نے فرمایا۔۔نعم البدعة ھذہ۔ یہ کتنا اچھا کام ھے جو نیا میں نے شروع کیا۔اب یھاں بدعت لغوی معنی میں ھے مردے ھوئے سنت کو ذندہ کرنے کے معنی میں۔۔اور چونکہ حدیث میں اب گزر چکا آپ صلی اللہ نے تین
تمھارا رات کو یہاں آنا مجھ سے مخفی نھی تھا لیکن میں نہ نکلا اس خدشے کی وجہ سے کہ کہی یہ نماز تم پر فرض نہ کی جائے اور پہر سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتئ ھے یہ معاملہ ایسے ھی رہ گیا یعنی صحابہ باجماعت نہی پڑھتے تھے۔ اور اسی طرح ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ھے وہ کہتے ھے کہ پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔سیدنا ابوبکر کے زمانے میں اور سیدناعمر رضوان اللہ اجمعین کے شروع زمانے میں یہ معاملہ ایسے ہی unattended رہا ۔لوگ اپنی اپنی طرح قیام اللیل پڑھ کر چلے جاتے۔اور کچھ گھروں میں پڑھ لیتے ۔
پانچویں حدیث بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث ھے نبی صلی اللہ نے فرمایا جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان میں قیام اللیل کیا اللہ تعالی اسکے پچھلے سارے گناہ معاف کردیگا۔۔۔۔اب یہ حتساب تین چیزوں کا نام ھے اخلاص ۔۔ثواب اور اصلاح نفس۔۔اور گناہ صرف صغیرہ معاف ھوتے ھیں کبیرہ توبہ سے۔۔ چھٹی حدیث بھی بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ھے۔سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ھے۔کہ آپ صلی اللہ ععلیہ وسلم نے تین دن تروایح کی نماز یعنی قیام اللیل جماعت کے ساتھ پڑھائی اور چھوتے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نہ نکلے حلانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے باھر صحابہ کرام کا حجوم لگ گیا۔پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے وقت نکلے اور فجر کی نماز کے بعد حمدو ثنا کرنے کے بعدخطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پہر دو رکعت پڑھتے پہر دو اور پہر دو پڑھتے اور پہر تین وتر اور وہ دو الگ رکعتیں پڑہ کر ایک وتر الگ سے پڑھ لیتے۔۔۔3۔ تیسری حدیث بھی متفق علیہ حدیث ھے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیام اللیل دو دو رکعتیں ھیں اور آخر میں ایک رکعت پڑھو یہ تمھاری پوری نماز کو طاق یعنی odd کردیگا۔ تو اس سے معلوم ھوا کہ وتر بھی اسی قیام الیل و تراویح کا نام ھے۔۔۔4۔چھوتی حدیث نبی صلی اللہ نے فرمایا قیام الیل کیا کرو یہ تم سے پہلے صالحین کی روش ھے۔یہ تمھارے رب سے قرب کا ذریعہ ھے ۔یہ تمھارے گناہوں کے معاف ھونے کا ذریعہ ھے اور گناھوں سے پاک ھونے کا ذریعہ ھے مطلب پوری زندگی قیام اللیل یعنی تروایح کیا کرو۔ سنت ھے فرض نھیں۔ لیکن سست لوگوں کیلئےرمضان میں پڑھنے کی تاکید ھے۔
دوسری حدیث بھی بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث ھےاماں عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے لیکر فجر تک کبھی بھی 11 رکعتوں سے زیادہ نھی پڑھتے تھے۔ اور دوسری روایت میں ھے 13 رکعتں تو اسمیں فجر کی بھی دو سنتیں شمار کرتے ھیں۔ پہر اماں عایشہ فرماتی ھے آپ صلی اللہ دو رکعت پڑھتے پہر دو رکعت پڑھتے پہر دو رکعت پڑھتے پہر دو رکعت پڑھتے پہر دو پڑھتے اور آخر میں ایک وتر یعنی ایک رکعت پڑھا کرتے اور پورا طاق ھو جاتا۔ اور امام مسلم کے الفاظ ھے
اس حدیث میں چار رکعت کا مطلب یہ نھی کہ اکھٹے چار پڑھتے بلکہ دو دو الگ آلگ پڑھتے ۔لیکن چار کے بعد توڑا رسٹ کرتے پہر پڑھ چار دو دو کر کے پڑھ لیتے اور پہر وتر بھی دو سلام کے ساتھ کیا کرتے۔۔ جسکے بارے میں احادیث واضح موجود ھے بخاری و مسلم میں اور اس حدیث کو امام بخاری قیام اللیل اور تھجد والے chaptrs دونوں میں لائے ھیں۔ اور اسکو کوئی رد نھی کرسکتا
پہلی حدیث متفق علیہ حدیث ھے بخاری و مسلم ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے سیدہ عایشہ رضی اللہ عنھا سے پو چھا اماں جان یہ بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ کی رمضان میں قیام ا لیل کسے ھوا کرتی تھی۔؟؟تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ بیٹا رمضان ھو یا غیر رمضان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 11 گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہی پڑھا کرتے تھے۔ پہر سیدنا عایشہ رضی اللہ عنھا نے فرماتی ھے چار چار رکعتیں پڑھا کرتے انکی خوبصورتی نہ پوچھو اور انکی لمبائی نہ پوچھو اور پہر آپ صلی تین رکعت ادا فرمایا کرتے تھے۔۔اب