پیمان وفا اور ہے سامان جفا اور
اس فتنہ ء دوراں نے کہا اور، کیا اور
محروم ہوا دین سے ، دنیا کی طلب میں
نا فہم نے کچھ اور ہی سوچا تھا ، ہوا اور
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
حالت جو ہماری ہے ، و تمہاری تو نہیں ہے
ایسا ہے تو پھر یہ تو کوئی یاری نہیں ہے
گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح
وہ چند روز، مِری زندگی کا حاصل تھے
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
نم آنکھیں
تلخ لہجے
ویران شامیں
ڈوبتا سورج
ہائے ماضی کی یادیں