وفا ٬ اِخلاص ٬ قُربانی ٬ مُحبت
اب اِن لفظوں کا پیچھا کُیوں کریں ہم 💔
جون ایلیاء 📖
کوئی حد نہیں عمر کی کوئی لحاظ نہیں ذات کا
عشق نے جسے چاہا۔۔۔۔۔۔سرعام نچایا
میری آنکھوں پہ کوئی آیت ہی پڑھ کر دم کر دو
یہ مسلسل تمہیں دیکھنے کی خواہش کرتی ہیں
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ،،،
ہر غم_زندگی کو بھول گیا،،،،
جون ایلیاء
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امید واری ہے
جون ایلیا
اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بُلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اَب کھِلی ہیں وہاں
اُن کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو
دھُول اڑتی ہے جو اُس آنگن میں
اُس کو بھیجو، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اُس گُل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ شامِ ہجر کے ہاتھوں
اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بَد دُعا بھیجو
جون ایلیا
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا ۔
میر تقی میر
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
اُن نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا ۔
میر تقی میر
قَدم دَشتِ محبت میں نہ رکھ میر
کہ سر جاتا ہے گامِ اولین پر ۔
میر تقی میر
سمجھے تھے ہم تو میر کو عاشق اُسی گھڑی
جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا ۔
میر تقی میر
ادھر سے ابر اُٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
کچھ آؤ زلف کے کوچہ میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے
سَرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے ۔
میر تقی میر
اس فَن کے پہلوانوں سے کُشتی رہی ہے میر
بُہتوں کو ہم نے زیر کیا ہے پچھاڑ کر ۔
میر تقی میر
گداز عاشقی کا میر کے شَب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہو گئی گھُل کر ۔
میر تقی میر
گداز عاشقی کا میر کے شَب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہو گئی گھُل کر ۔
میر تقی میر
دل کی ویرانی کا کیا مَذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا ۔
میر تقی میر
لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
عزت کی اپنی اب ہم ذلت کیا کریں گے
احوال میر کیونکر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے ۔
میر تقی میر
وہ جو پی کر شراب نکلے گا
کس طرح آفتاب نکلے گا
جب اُٹھے گا جہان سے یہ نقاب
تب ہی اس گا حجاب نکلے گا
تذکرے سب کے پھر رہیں گے دھرے
جب مرا انتخاب نکلے گا
میر دیکھو گے رنگ نرگس کا
اب جو وع مستِ خواب نکلے گا ۔
میر تقی میر
جن بلاؤں کو میر سُنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا ۔
دیوانِ میر
یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جاۓ گا ۔
میر تقی میر
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain