صرف ہاتھ ہی نہیں الفاظ بھی سہارا بنتے ہیں
جہاں ہاتھ نہ تھام سکیں وہاں لفظوں سے تھام لیا کریں
اب مجھے الجھنا نہیں آتا
اب میں ہار مان جاتی ہوں
دل کرتا ہے اتنا روؤں کے
دماغ کی نسیں پھٹ جائیں
کوشش کیجئے کہ
زندگی میں آپ کو وہ شخص ہمیشہ مسکراتا ہوا ملے
جسے آپ روز آئینہ میں دیکھتے ہیں
ہم آپ کو اپنی خبر دیں بھی تو کیا سوچ کر
ہم کو رہنا ہی نہیں آپ کو خبر ہونے تک
ایک دن میں مر جاؤں گی
اور آپ کو لگے گا آف لائن ہوں
نیند کی گولیاں کھاتی ہے اب
وہ جو عشاء پڑھ کے سو جایا کرتی تھی
ناول پڑھ کر رونے والی حساس لڑکی
زندگی کی
تلخیوں کو مسکرا کر جھیلتی ہے
دھڑکتا تھا کبھی
اب کانپتا ہے دل
مت پوچھو کہ کس طرح سے گزر رہی ہے زندگی
اس دور سے گزر رہے ہیں جو گزرتا ہی نہیں
کبھی کبھار وقت کے ساتھ سب ٹھیک نہیں سب ختم ہو جاتا ہے
اسے چاہ تھی میری ذات سے
مجھے عمر بھر یہ گمان رہا