ﺍﻭﺭ ﺍﺱ " ﺟﺪﯾﺪ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ " ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ " ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ "
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﺍﺑﻦ ﺁﺩﻡ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ
ﮔﮭﭩﯿﺎ ﺳﮯ ﮔﻔﭧ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺑﺎﺭ ﮐﯽ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ
"ﺧﺮﯾﺪ " ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ
ﺳﻮﭼﻨﺎ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﺴﺎﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ "ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ " ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ "ﭨﺎﺋﻢ
ﭘﺎﺱ "
(سخت مگر قابل غور بات)
کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
کم ازکم 100 لڑکیوں تک یہ بات پہنچانی ھر ایک اپنی ذمہ داری سمجھے
ﮔﺮﻝ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﯾﺎ ﺟﺪﯾﺪ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ "ﻟﻮﻧﮉﯼ
۔
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﺪﯾﻢ
ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﭼﻠﮯ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ :
ﺍﯾﮏ :
ﺑﺎﻋﺰﺕ , ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻗﺎﺋﻢ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﺩﻭﺳﺮﯼ :
ﻣﻨﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ , ﻗﺎﺑﻞ ﺧﺮﯾﺪ ﻭ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻋﻮﺭﺕ
ﺟﺲ ﮐﻮ " ﻟﻮﻧﮉﯼ " ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ،
ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﺎ ﺳﭩﯿﭩﺲ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﯾﭧ ﻟﮕﺎ
ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺘﺎ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ
ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ , ﺍﺳﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ
ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ
ﻟﯿﮑﻦ
ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺎﻋﺰﺕ , ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ
ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺎﻟﮑﻦ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﺒﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﺍ ﮐﺮ
ﻭﮨﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﮯ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﯿﮟ
،💚جمعہ مبارک💚
طاقت کی ضرورت تب ھوتی ہے جب کچھ برا کرنا ہو ورنہ دنیا میں سب کچھ پانے کہ لئے پیار ہی کافی ہے

عشق ایسا عجیب دریا ہے
جو بنا ساحلوں کے بہتا ہے
اس بھری کائنات کے ہوتے
آدمی کس قدر اکیلا ہے ۔۔۔
امجد اسلام امجد🍃
ہم تھے ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسین دن کہیں دیکھا سُنا نہ تھا
آنکھوں میں اُس کی تیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اُٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا
کُچھ ایسے اُس کی جِھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا
ہاتھوں میں دیر تک کوئی خُوشبو بسی رہی
دروازۂ چمن تھا وہ بندِ قبا نہ تھا
اُس کے تو انگ انگ میں جلنے لگے دِیے
جادُو ہے میرے ہاتھ میں مجھ کو پتا نہ تھا
اُس کے بدن کی لَو سے تھی کمرے میں روشنی
کھڑکی میں چاند طاق میں کوئی دِیا نہ تھا
کل رات وہ نگار ہُوا ایسا مُلتفت
عکسوں کے درمیان کوئی آئنہ نہ تھا
سانسوں میں تھے گلاب تو ہونٹوں پہ چاندنی
ان منظروں سے میں تو کبھی آشنا نہ تھا
( امجد اسلام امجد)
🍃

cellphones k samne khamosh rhye q k dewaron k nahi google k b kaan hote hen ,confirmed,h pakistanies
انکار کی سی لذت اقرار میں۔کہاں
بڑھتا ہے شوق غالب انکی نہیں نہیں سے
(مرزا اسد اللہ خان غالب )

خلا کی وسعتوں میں ہر گھڑی لاکھوں ستارے ٹوٹتے ہیں
اور فنا کا رزق بنتے ہیں
مگر آنکھیں
ہماری آپ کی یہ کم نظر کوتاہ بیں آنکھیں
نہ ان کو دیکھ سکتی ہیں نہ کو جان پاتی ہیں
بس اتنا ہے
کہ کچھ ہونے کا اک بےنام سا اِحساس رہتا ہے
ستاروں سے ہماری جانکاری بس یہیں تک ہے
مگر ایسا بھی ہوتا ہے
فضا میں دفعتاً اک روشنی پھیل جاتی ہے
کوئی ایسا ستارہ ٹوٹتا ہے
جس کے ہونے سے شبِ مہتاب کا اور آسماں کا حُسن قائم تھا
امجد اسلام امجد <3
( میرے بھی ہیں کچھ خواب سے انتخاب )
#حمزہ

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain