دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے امجد اسلام امجد
اکتوبر بھی گزر رہا ہے ، راتیں لمبی ہوتی جارہی ہیں اور ہوا میں خنکی بڑھ رہی ہے مجھے بہت پسند ہے سردی کی پہلی دستک ، سرسراتی ٹھنڈی ہوائیں ، اداسی میں ڈوبی شامیں ، پتوں کا گرنا ، سورج کی آخری جھلک ، اور _____!! رات کی تاریکی میں بادلوں میں چھپا چاند ، گھر والوں کی ڈانٹ کو نظر انداز کرکے گھنٹوں چھت پر بیٹھنا ، دھندلے آسمان کو میں اس تارے کو ڈھونڈنا جو میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتا ہے ، ہاں مجھے بہت پسند ہے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا ..!!
انسان جس کے خلاف ہو کر چلے اسے بھی یہ علم ہونا چاہیے اور جس کے ساتھ ہو اس کو بھی اس بات کا پتہ لگنا چاہیے دوستی یا دشمنی تعلق کوئی سا بھی ہو کرسٹل اینڈ کلیئر ہونا چاہیے یہ درمیان کا راستہ منافقت کی اعلیٰ ترین سطح اور بدترین قسم ہوتا جس میں بظاہر آپ کسی کے ساتھ ہوتے ہوئے پیٹھ پیچھے کھڑے اس کے گرنے کی وجہ بنتے یا گرنے کے منتظر ہوتے یا پھر پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اکثر وہی لوگ ہمیں گرانے کی وجہ بنتے جن کے کھڑے ہونے کی وجہ ہم ہوتے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ہمیں گرانے کے بعد کھڑا انہوں نے بھی نہیں رہنا ہوتا۔ بہت سارے منافق مل کر ہماری جڑیں کاٹ بھی دیں کوئی ایک صرف ایک مخلص انسان بھی ہمیں سہارا دیئے ہوئے ہو تو یقین مانیئے ہم کبھی نہیں گر سکتے۔ ,,🔥
ھمیں دریافت کرنے سے ھمیں تسخیر کرنے تک بھت ھی مرحلے باقی .... ھمیں زنجیر کرنے تک ھمارے ھجر کے قصے۔۔۔ سمیٹو گے تو لکھو گے ھزاروں بار سوچو گے ۔۔۔ ھمیں تحریر کرنے تک! #حiرa🥀🥀
ابنِ انشاء لکھتے ہیں :😁😁 گداگروں کے متعلق یہ فرض کرلینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔ بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔ ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔ تختی پر لکھا تھا کہ: "میں گونگا اور بہرہ ہوں راہِ مولا میری مدد کیجیئے۔" ہم نے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا : برخوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟ بولا جی پیدائشی گونگا بہرہ ہوں۔ (ابن انشاء کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)