مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے بس اتنا یاد ہے مجھ کو ازل کی صبح جب سارے ستارے الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا اسی تارے کی صورت کا مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں اور اس کی راہ تکتا ہوں سنا ہے گمشدہ چیزیں جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں وہیں سے مل بھی جاتی ہیں مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے! امجد اسلام امجد# yeh bohat khubsurat Poem mai apne dmd k Sb frnds ko dedicate krti hun .
غزل حسین چہرہ قتیل آنکھیں دلیل ، منطق ، وکیل آنکھیں یہ تَشنہ کاموں کی خانقاہیں ہیں آبِ خُم کی سبیل آنکھیں مجاورِ آبِ انگبیں ہیں سبوُ، سمندر، یہ جھیل آنکھیں میں خواب بن کے گُزر رہا ہوں وہ لاکھ کرلے فصیل آنکھیں
———————————— مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے بس اتنا یاد ہے مجھ کو ازل کی صبح جب سارے ستارے الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا اسی تارے کی صورت کا مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں اور اس کی راہ تکتا ہوں سنا ہے گمشدہ چیزیں جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں وہیں سے مل بھی جاتی ہیں مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے!(امجد اسلام امجد (❤
❤️ وہ اپنی خوشبو، ندی، محبت تمام غزلیں، تمام نظمیں تمام جگنو تمہاری آنکھوں کی چاندنی کا احاطہ کرتے سب استعارے ہوا کے آنچل پہ رکھ گیا ہے گلاب لہجے میں بولتا تھا تو کیسی حیرت کہ آج خوشبو کا ہاتھ تھامے بکھر گیا ہے وہ چاندنی سا نکھر گیا ہ
❤️ امجد اسلام امجد کے لیے ❤️ دمکتے مصرعوں کی روشنی سے فروزاں غزلیں سنانے والا لرزتی بوندوں سے لپٹی بارش کو استعارہ بنانے والا وہ ایک شاعر وہ جس کی نوکِ قلم کے نیچے ہمیشہ حرفوں کی چاندنی تھی وہ جس کی نظموں کے استعارے جواں دلوں میں جگا رہے تھے، محبتوں کے حسین منظر جو اپنی دھڑکن کے سارے جگنو لرزتی سانسوں کو دے گیا ہےوہ تمہارا شاعر ، تمہارا عاشق چلا گیا ہے