کون کسی کو دل میں جگہ دیتا ہے
درخت بھی سوکھے پتے گرا دیتا ہے
واقف ہیں ہم دنیاں کے رواجوں سے
جب دل بھر جائے تو ہر کوئی بھلا دیتا ہے
جنہیں احساس ہی نہ ہو
ان کے ساتھ گلے کیسے شکوے کیسے
جو باتیں پی گیا تھا میں
وہ باتیں کھا گئ مجھ کو
بزم وفا میں اپنی غریبی نا پوچھ
اک درد دِل ہے وہ بھی کسی کا دیا ہوا
*اکتوبر ہو گیا ختم ، نومبر بھی جانےوالا ہے*
*تیری یادوں کو لے کر پھر دسمبر آنے والا ہے*
ہم تیرے بعد گریں گے خستہ مکانوں کی طرح
کہیں کھڑکی ،کہیں کنڈی ،کہیں در چھوڑ جائیں گے۔۔!!
عشق ریشم سے بُنی شال ہے، آہستہ چُھو
ایک دھاگہ جو کُھلے، شال اُدھڑ جاتی ہے
آپ پوشاک اُدھڑنے پہ ہیں گھبرائے ہوئے ؟
صاحب ! عشق میں تو کھال اُدھڑ جاتی ہے
*زندگی جیسی جلانی تھی جلا دی ہم نے...!!*
*اب دھوئیں پہ بحث کیسی راکھ پہ اعتراض کیسا*
مانتا ہوں تجھے عشق نہیں مجھ سے لیکن
اس وہم سے اب کون نکالے مجھ کو
سر کی کھائی ہوئی قسموں سے مکرنے والے
تو تو دیتا تھا حدیثوں کے حوالے مجھ کو
ارے صاحب آکر دیکھ لیجیے
میری ذندگی کی آخری قسط ہے
یہ کیسا اذن تکلم ہے جس کی بات نہ ہو
سوال کرنے دیا جائے اور جواب نہ ہو.!!
اگر خلوص کی دولت کے گوشوارے بنیں
تو شہر بھر میں کوئی صاحب نصاب نہ ہو.!!
ہرا ہے زخم تمنا تو اشک کیسے تھمیں
بہار میلے میں کیوں شرکت گلاب نہ ہو.!!
ہمیں تو چشمہ حیواں بھی کوئی دکھلائے
تو تجربہ یہ کہے گا، کہیں سراب نہ ہو.!!
مانتی ہوں کہ تجھے عشق نہیں ھے مجھ سے... !
مگر اس وہم سے اب کون نکالے مجھ کو.....!!
سر کی کھائی ہوئی قسموں سے مکرنے والے...!
تو تو دیتا تھا حدیثوں کے حوالے مجھ کو.....!!
اندر سے تو کب کے مر چکے ہیں ہم
اے موت تو بھی آجا کہ لوگ ثبوت مانگتے ہیں
ضُعف تسلیم، مگر جمِّ اسیرانِ جفا
کوئی چارہ تو کرو، شور دُہائی ہی سہی
میں تَہی دست کہاں یاد بھی دے پایا اُسے
وہ تو کچھ دے ہی گیا، رنجِ جدائی ہی سہی
ﺣُﺠﺮﮦ ﺀ ﭼﺸﻢ ﺗَﻮ ﺍﻭﺭﻭﮞﮐﮯ لیے ﺑﻨﺪ ﮐِﯿﺎ
آﭖ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﯿﮟ' ﺁﺋﯿﮟ ۔۔ ﺟﺎﺋﯿﮟ
اﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺩﺭﻣﺎﻥِ ﻣَﺤﺒّﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ
آﭖ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯿﮟ، کوئی ﺯﺧﻢ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺎﺋﯿﮟ
اچھا تو میں اب چلتا ہوں سفرِ آزاد پر
کوئی میرا پوچھے کہہ دینا إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون
ہمارے درد کی عمریں دراز کر دی گئیں
ہمارے پاس مسائل کا حل نہیں تھا
گردش ایام میں اوروں کی طرح سے
تو بھی تو یار میرے ساتھ نہیں ھے
میں تو پڑا ہوا ہوں رحم و کرم پہ وقت کے
تیرے ہاتھ میں زمانہ ھے میرا ہاتھ نہیں ھے
ڈال کر اپنئ توجہ کی عادت
یک دم جو بدلتے ھیں ستم کرتے ھیں
میں جانتا ہوں کہ آج ہے اور کل نہیں ہے
سو یہ محبت مِری اُداسی کا حل نہیں ہے
کہا نہیں تھا تِری کمی مار دے گی مجھ کو
کہا تو تھا کوئی تیرا نعم البدل نہیں ہے
تُو زندگی میرے حوصلے کی تو داد دے ناں
تُجھے گزارا ہے اور ماتھے پہ بل نہیں ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain