کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے
ساتھ وہ بھی چھوڑ گے جو جان سے پیارے تھے
اسحاق خان
میری ذات سے وابستہ اک شخص
میرے پاس تو رہا پر میرا نہیں رہا
اسحاق خان
ارے کون کہتا ہے محبت کافر بنادیتی ہے
مچھے سجدے میں رونا محبت نے سیکھا ہے
اسحاق خان
چلو اب کی بار مل کر مقدر سے لڑتے ہیں
تم لوٹ آؤ ہم پھر سے محبت کرتے ہیں
اسحاق خان
مانا کہ چرچے ہیں تیری خوبصورت کے چار سو
آ دیکھ ھماری سادگی کےقصے بھی کچھ کم نہیں
اسحاق خان
بھر وہ نہ آئے شام کا وعدہ کرکے
ہم تمام رات شمع جلا جلا کے روئے
اسحاق خان
کاش دل کی آواز میں اثر ہو جائے
ہم جنہیں یاد کریں انہیں خبر ہو جائے
اسحاق خان
جس جس کو میرا دل چاہیا تو وہ ہاتھ اوپر کروں
میرے بعد بھی چلتے رہینگے قافلے یہاں
اک تارے کے ٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا
اسحاق خان
کوئی کتنا ہی خوش مزاج کیوں نہ ہو
رلا دیتی ہے کس کی کمی کھبی کھبی
اسحاق خان
سوکھے ہونٹوں سےہی ہوتی ہیں میتھی باتیں
پیاس جب بجھ جائے تو لہج بدل جاتے ہیں
اسحاق خان
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شحص کی عادت نہیں ہوتی مچھ کو
اسحاق خان
اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مچھ کو
زخم کھلتے ہیں پر اذیت نہیں ہوتی مچھ کو
اسحاق خان