نوراں کنجری- پارٹ ایٹ
-----
پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
غلام شبیر ہنسنے لگا۔ کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی۔ پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے۔ بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب۔ اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ…۔۔ کہاں اس جہنم میں پھنس گئے۔ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا۔
آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھائیں۔ دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے۔ ان کو قرآن پڑھا دیں۔ باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں۔ بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں۔ غلام شبیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آئی۔
نوراں کنجری- پارٹ سیون
----
ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی۔ سو ایک دن غلام شبیر سے پوچھ ہی لیا۔
میاں یہ بتاؤ کہ پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟
وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کہ بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے۔
میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی۔ محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے۔ بس دل آ گیا ایک لڑکی پہ۔ لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو۔ پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھنے بجھانے کی کوشش کی۔ پھر ڈرایا دھمکایا لیکن مولانا نہیں مانے۔ ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی۔ بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے۔ ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کہ مولانا جان سے گئے۔ غلام شبیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی۔
نوراں کنجری - پارٹ سکس
------
سامان سنبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے۔ گھر کیا تھا۔ دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل۔ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلاء اور ایک ننھا منا سا صحن۔ بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا؟ بہت تھا ہمارے لئے۔ بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی۔ دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا۔ گھر ٹھیک کرنے میں غلام شبیر نے بہت ہاتھ بٹایا۔ صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک۔ تھوڑا کریدنے پر پتا چلا کہ یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبیرگھر کا کام بھی کرتا تھا۔ بس تنخواہ کے نام پہ غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا۔ یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی۔
نوراں کنجری ۔ پارٹ فائیو
عجیب طوفان بدتمیز تھا۔ مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کہ جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو۔ اس سے پہلے کہ میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شبیر کو جو ‘مولوی صاحب’ ‘مولوی صاحب’ کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا۔ پتہ چلا کہ مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا۔ بھائی طبیعت خوش ہوگئی اس سے مل کر۔ دُبلا پتلا، پکّی عمر کا مرد۔ لمبی سفید داڑھی، صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا، کندھے پہ چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا۔ پیشانی پہ محراب کا کالا نشان، سر پہ سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں۔ سادہ اور نیک آدمی اور منہ پہ شکایت کا ایک لفظ نہیں۔ بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمت رکھتا تھا۔
نوراں کنجری۔ پارٹ فور
-----
الیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پہ منڈلاتی بےحساب مکھیاں۔ سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں۔ دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے نئے پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے۔
مسجد کے سامنے تانگہ کیا رُکا، جیسے محلے والوں کی عید ہوگئی۔ پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں۔ ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پہ اُٹھا لیا۔
ابے نیا مولوی ہے؟
بیوی بھی ساتھ ہے۔ پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا۔
کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟
ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو۔ داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک!
نوراں کنجری۔ پارٹ تھری
------
سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے الله کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے۔ بادامی باغ اڈے پہ اُترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی۔ ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اُوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عوض لے جانے کی حامی بھری۔ تانگہ چلا تو کوچوان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کہہ کر کیا کہ
میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں۔
پندرہ بیس منٹ میں ہم پہنچ گئے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا۔ دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا۔ وہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کےغلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پہ منڈلاتی بےحساب مکھیاں۔
نوراں کنجری۔ پارٹ ٹو
-------
میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑھ گیا۔
پھر الله بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کہ امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی۔ اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی۔ پردے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کہ ان کے بگڑنے کا ڈر ہو؟
بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ہوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا۔ بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کہ شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود الله نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا۔ خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی۔ جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دُکھتا تھا تو میں یاد الٰہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منھ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی۔
نوراں کنجری۔۔ پارٹ ون
---------
دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب محکمہ اوقاف نے زبردستی میری تعیناتی شیخو پورے کے امیر محلے کی جامع مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لائوڈ سپیکر پہ تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ شومئی قسمت کہ وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا۔ نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا۔ بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ۔ جو سنتا تھا ہنستا تھا یا پھر اظہارِ افسوس کرتا تھا۔
محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی۔ تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا۔
قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں
السلام علیکم!
آج میں بھی ایک شارٹ سٹوری بھیجنے لگا ہوں۔۔۔ اچھی لگے تو ضرور بتائیے گا۔۔۔
نوراں کنجری۔۔ تحریر: شھریار خاور
*الحمدللہ کہنے کی عادت ڈالیں...*
*کیونکہ اللّه تعالیٰ شکرگزاروں سے بہت محبت کرتا ہے..❤*
*🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵*
*💫رشـتے مـوتیوں جیسے ھوتے ھیــــں ... اگــر گـر بھی جــائیں ... تـو ذرا سـا جھک کـر اُٹھــا لینے چــاہئیں .......!!!*
*🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵*
*"کچھ چیزیں بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں؛ جیسے خوشی اور اپنے چاہنے والوں سے ملنا..."*
*🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵*
*💫کہتے ہیں کہ موسم، وقت، زمانہ، کیفیاّت، نیکی بدی، گناہ ثواب، خوبصورتی بدصورتی، رنگ ڈھنگ، سب اِنسان کے اندر موجود ہوتے ہیں بس اِنہیں کھوجنے، برتنے کا ہُنر آنا چاہئے...!!!*
🌹🌹🌹🥀🥀🥀
*🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵*
*باصلاحیت انسانوں کی قدردانی اجتماعی کامیابی کا اصل راز ہے.....!!!!*
*🏵🌼ســنــھــری بــاتــیــں🌼🏵*
*💫جذبات جذبات کو پیدا کر سکتے ہیں اگر آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو زبردستی مٌسکرائیں اور ہنسیں آہستہ آہستہ آپکا دماغ بھی آپکی اداکاری کیمطابق عمل کرنے لگے گا اور آپ سچ مچ خوش رہنے لگیں گے*





submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain