Damadam.pk
Jaavi's posts | Damadam

Jaavi's posts:

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی سیون
---
ہماری نظریں ملیں تو سب کلفت بھول گئی۔ میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور آنسو پونچھے
کہاں چلے گئے تھے آپ؟ کچھ ہوجاتا تو؟ پریشانی سے الفاظ اس کے گلے میں اٹک رہے تھے۔
بس کیا بتاؤں آج مرتے مرتے بچا ہوں۔ جانے کون سی نیکی کام آ گئی۔ میں تو پاؤں تلے روندا جا چکا ہوتا اگر نوراں نہیں بچاتی۔ میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نوراں؟ ہماری پڑوسن نوراں؟ وہ یہاں کہاں آ گئی؟ آپ نے کسی اور کو دیکھا ہوگا۔ اس نے حیرانگی سے کہا
ارے نہیں۔ نوراں ہی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نوراں کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نجانے کب کی جا چکی تھی۔ بعد میں بھی اس کو بہت ڈھونڈا مگر اتنے جم غفیر میں کہاں کوئی ملتا ہے
خدا خدا کر کے حج پورا ہوا اور ہم دونوں میاں بیوی وطن واپس روانہ ہوئے۔ لاہور ائیرپورٹ پر غلام شبیر پھولوں کے ہاروں سمیت

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ٹونٹی سکس
-----
یں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ کسی الله کے بندے نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور مجھے سہارا دے کر کھڑا کر دیا۔
میں نے سانس درست کی اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کی طرف نگاہ کی۔ ایک لمحے کے لئے تو میرے اوپر بجلی ہی گر پڑی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے نوراں کنجری کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ‘یہ ناپاک عورت یہاں کیسے آ گئی؟ اس کی حج کی درخواست کس نے اور کب منظور کی؟ میں نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر کہاں صاحب۔ ایک آہنی گرفت تھی۔ میں نہیں چھڑا سکا۔ وہ مجھے اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی ایک طرف لے گئی۔ اس طرف کچھ عورتیں اکٹھی تھیں۔ اچانک میری نظر زوجہ پر پڑی جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بے تاب نگاہوں سے مجمع ٹٹول رہی تھی۔ ہماری نظریں ملیں تو سب کلفت بھول گئی۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی فائیو
-----
فرائض پورے کرتے کرتے رمی کا دن آ گیا۔ بہت رش تھا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ۔ ایک ٹھاٹھیں مارتا سفید رنگ کا سمندر۔ گرمی بھی بہت تھی۔ میرا تو دم گھٹنا شروع ہوگیا۔ زوجہ بیچاری کی حالت بھی غیر ہوتی جا رہی تھی۔ اوپر سے غضب کچھ یہ ہوا کہ میرے ہاتھ سے اس غریب کا ہاتھ چھوٹ گیا۔ ہاتھ کیا چھوٹا، لوگوں کا ایک ریلا مجھے رگیدتا ہوا پتا نہیں کہاں سے کہاں لے گیا۔ عجب حالات تھے۔ کسی کو دوسرے کا خیال نہیں تھا۔ ہر کوئی بس اپنی جان بچانے کے چکّر میں تھا۔ میں نے بھی لاکھ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر پیر رپٹ ہی گیا۔ میں نیچے کیا گرا، ایک عذاب نازل ہوگیا۔ ایک نے میرے پیٹ پر پیر رکھا تو دوسرے نے میرے سر کو پتھر سمجھ کر ٹھوکر ماری۔ موت میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی۔ میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بند کی ہی تھیں

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی فور
-----
میاں جی۔ طوائف ہے پر مسلمان بھی تو ہے۔ اور وہ تو الله کا گھر ہے۔ وہ جس کو بلانا چاہے بلا لے۔ اس کے لئے سب ایک برابر۔ اپنی طرف سے غلام شبیر نے بڑی گہری بات کی۔
اچھا؟ الله جس کو بلانا چاہے بلا لے؟ واہ میاں واہ۔ تو پھر میں درخواست کیوں جمع کراؤں؟ نوراں سے کہو سیدھا الله تعالیٰ کو ہی بھیج دے۔ میں نے غصّے سے کہا اور اندر کمرے میں چلا گیا۔
زوجہ کا بھانجا بر خوردار نکلا اور الله کے فضل و کرم سے میری اور زوجہ کی درخواست قبول ہو گئی۔ ٹکٹ کے پیسے کم پڑے تو اسی بھلی لوک کے جہیز کے زیور کام آ گئے۔ الله کا نام لے کر ہم روانہ ہوگئے۔ احرام باندھا تو گویا عمر بھر کے گناہ اتار کے ایک طرف رکھ دیے۔ الله کا گھر دیکھا اور نظر بھر کے دیکھا۔ فرائض پورے کرتے کرتے رمی کا دن آ گیا۔ بہت رش تھا۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی تھری
-----
میں نے داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میاں جی، آپ کی تو وزارت میں واقفیت ہے۔ ایک اور حج کی درخواست بھی جمع کرا دیں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات میری جانب بڑھا دیئے۔
دیکھو میاں غلام شبیر، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں گھر بار تمہارے ذمے چھوڑ کر جا رہا ہوں اور پھر تمہارے پاس حج کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟ میں نے کچھ برہمی سے پوچھا
نہیں نہیں میاں جی۔ آپ غلط سمجھے۔ یہ میری درخواست نہیں ہے۔ نوراں کی ہے۔ اس نے سہم کر کہا
کیا؟ میاں ہوش میں تو ہو؟ نوراں کنجری اب مکّے مدینے جائے گی؟ اور وہ بھی اپنے ناپاک پیشے کی رقم سے؟ توبہ توبہ۔ میرے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گئی یہ واہیات بات سن کر
میاں جی۔ طوائف ہے پر مسلمان بھی تو ہے۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ٹونٹی ٹو
---
اس کے بعد نوراں کا ذکر میرے سامنے تب ہوا جن دنوں میں اپنے اور زوجہ کے لئے حج بیت الله کی غرض سے کاغذات بنوا رہا تھا۔ اس غریب کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اور میں الله اور اس کے نبی پاک ﷺ کی خدمت میں پیش ہوں اور اولاد کی دعا کریں۔ میرا بھی من تھا کے کسی بہانے سے مکّے مدینے کی زیارت ہوجائے۔ نام کے ساتھ حاجی لگا ہو تو شاید محکمے والے کسی اچھی جگہ تبدیلی کر دیں۔ زوجہ کا ایک بھانجا انہی دنوں وزارت مذہبی امور میں کلرک تھا۔ اس کی وساطت سے درخواست کی قبولی کی کامل امید تھی۔ کاغذات فائل میں اکٹھے کیے ہی تھے کہ غلام شبیر ہاتھ میں کچھ اور کاغذات اٹھائے پہنچ گیا۔
میاں جی………ایک کام تھا آپ سے۔ اجازت دیں تو عرض کروں۔ اس نے ہچکچاتے کہا
ہاں ہاں میاں، کیوں نہیں۔ کیا بات ہے؟ میں نے داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ٹونٹی ون
چھوڑئیے میاں جی۔ عورت غریب ہے اور دنیا بڑی ظالم۔ اس نے گویا بات کو ٹالنے کی کوشش کی مگر میں اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا۔
یہ بتاؤ میاں، جب اس کے گاہک آتے ہیں تو کیا بچوں کے سامنے ہی……………………؟ میں نے معنی خیز انداز میں اپنا سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا۔
میاں جی، ایک تو اس کے بچے صبح اسکول جاتے ہیں اور اس لئے رات کو جلدی سو جاتے ہیں۔ دوسرا، مہمانوں کے لئے باہر صحن میں کمرہ الگ رکھا ہے۔ غلام شبیر نے ناگوار سے لہجے میں جواب دیا۔
استغفراللہ! استغفراللہ! میں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں ختم کرنا مناسب سمجھا کیوں کہ مجھے احساس ہو چکا تھا کہ غلام شبیر کے لہجے سے جھانکتی ناگواری کا رُخ نوراں کی جانب نہیں تھا۔
اس کے بعد نوراں کا ذکر میرے سامنے تب ہوا جن دنوں میں اپنے اور زوجہ کے لئے حج بیت الله کی غرض سے ۔۔۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی
--------
مسجد سے باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی۔ بالکونیوں پر جھلملاتے پردے لہرا رہے تھے اور کوٹھوں سے ہارمونیم کے سر اور طبلوں کی تھاپ کی آواز ہر سو گونج رہی تھی۔ پان سگریٹ اور پھولوں کی دکانوں پر بھی دھیرے دھیرے رش بڑھ رہا تھا۔ اچانک میری نظر نوراں کے گھر کے دروازے پرجا پڑی۔ وہ باہر ہی کھڑی تھی اور ہر آتے جاتے مرد سے ٹھٹھے مار مار کر گپیں لگا رہی تھی۔ آج تو اس کا رُوپ ہی دوسرا تھا۔ گلابی رنگ کا چست سوٹ، پاؤں میں سرخ گرگابی، ننگے سر پہ اونچا جوڑا، جوڑے میں پروئے موتیے کے پھول، میک اپ سے لدا چہرا، گہری شوخ لپ سٹک، آنکھوں میں مسکارا اور مسکارے کی اوٹ سے جھانکتی ننگی دعوت۔
لاحول ولا قوۃ اللہ باللہ۔ میں نے طنزیہ نگاہوں سے غلام شبیر کی جانب دیکھا۔ آخر وہ نوراں کا وکیل جو تھا۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ نائنٹین
---
بس اس محلے میں صرف نوراں اپنے بچوں کو مسجد بھیجتی ہے۔ باقی سب لوگوں کے بچے تو آوارہ پھرتے ہیں۔ غلام شبیر کی آواز میں پھر نوراں کی وکالت گونج رہی تھی۔ میں نے بھنا کر جواب دینے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ کوتوال صاحب کی گاڑی سامنے آ کر رکی۔ خود تو پتا نہیں کیسا آدمی تھا مگر بیوی بہت نیک تھی۔ ہر دوسرے تیسرے روز ختم کے نام پر کچھ نہ کچھ میٹھا بھجوا دیتی تھی۔ اس دن بھی کوتوال کا اردلی جلیبیاں دینے آیا تھا۔ گرما گرم جلیبیوں کی اشتہاء انگیز مہک نے میرا سارا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور نوراں کنجری کی بات آئی گئی ہوگئی۔
یہ نبیل کو مار پڑنے کے کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے۔ عشاء پڑھا کے میں غلام شبیر سے ایک شرعی معاملے پر بحث میں الجھ گیا تو گھر جاتے کافی دیر ہوگئی۔ مسجد سے باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ایٹین
----
نبیل کی ماں ہے۔ بچے کی چوٹ برداشت نہیں کر سکی اور آپ نے اس غریب کو ڈانٹ دیا۔ غلام شبیر نے نوراں کی وکالت کرتے ہوئے کہا۔
تو نبیل نوراں کا بیٹا ہے۔ ایسی حرکتیں کرے گا تو سزا تو ملے گی۔ جیسی ماں ویسا بیٹا۔ میں نے اپنی شرمندگی کو بیہودگی سے چھپانے کی کوشش کی۔ ایک لمحے کو خیال بھی آیا کہ بچہ تو معصوم ہے اور پھر میں نے زیادتی بھی کی تھی۔ مگر پھر اپنے استاد ہونےکا خیال آیا تو سوچا کہ بچے کی بھلائی کے لئے ہی تو مارا ہے۔ کیا ہوا۔ اور پھر ایک طوائف کو کیا حق حاصل کہ مسجد کے امام سے شکایت کر سکے۔
کتنے بچے ہیں نوراں کے؟ میں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔
مسجد میں پڑھنے والے سب بچے نوراں کے ہیں میاں جی۔ اس کے علاوہ ایک گود کا بچہ بھی ہے۔ بس اس محلے میں صرف نوراں اپنے بچوں کو مسجد بھیجتی ہے۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ سیونٹین
---
ڈبڈبائی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے کسی اَن کہی فریاد کی لو بھڑکی۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے آنسوؤں کے پانی میں احتجاج کے ارادے کو غرق کیا اور بغیر کوئی اور بات کئے چلی گئی۔ میں نے بھی نہ روکا کہ پتا نہیں کس ارادے سے آئی تھی۔ اتنی دیر میں غلام شبیر بھی پہنچ گیا۔
کون تھی میاں جی؟ کیا چاہتی تھی؟ غالباً اس نے عورت کو تو دیکھا تھا مگر دُور سے شکل نہیں پہچان پایا۔
نوراں کنجری تھی۔ پتا نہیں کیوں آئی تھی؟ مگر میں نے بھی وہ ڈانٹ پلائی کہ آئندہ اس پاک جگہ کا رُخ نہیں کرے گی۔ میں نے داد طلب نظروں سے غلام شبیر کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر ستائش کی جگہ افسوس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
وہ بیچاری دُکھوں کی ماری اپنے بچے کا گلہ کرنے آئی تھی میاں جی۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ سکسٹین
---
یں نے ادھر ادھر غلام شبیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نبیل کی مرہم پٹی کرا کے اور اس کو اس کے گھر چھوڑنے کے بہانے نجانے کہاں غائب تھا۔
جی۔ نوراں کنجری! اس نے نظریں جھکائے اپنے نام کا اقرار کیا۔ مجھے کچھ دیر کے لئے اپنے منہ سے نکلنے والی اس کے گالی جیسی عرفیت پہ شرمندگی ہوئی مگر پھر خیال آیا کےہوہ طوائف تھی اور اپنی بری شہرت کی خود ذمہ دار۔ شرمندگی اس کو ہونی چاہیے تھی، مجھے نہیں۔ پھر اچانک مجھے احساس ہوا کہ میری موتی جیسی مسجد میں اس طوائف کا نا پاک وجود کسی غلاظت سے کم نہیں تھا۔
باہر نکل کے کھڑی ہو۔ مسجد کو گندا نہ کر بی بی۔ میں نے نفرت سے باہر گلی کی جانب اشارہ کیا۔
اُس نے کچھ اس حیرانگی سے آنکھ اٹھا کے میری طرف دیکھا کہ جیسے اُسے مجھ سے اس رویے کی امید نہ ہو۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ففٹین
ٓٓٓٓٓ
چالیس پینتالیس کا سن ہوگا۔ معمولی شکل و صورت۔ سانولا رنگ اور چہرے پہ پرانی چیچک کے گہرے داغ۔ آنسوؤں میں ڈوبی آنکھیں اور گالوں پر بہتا کالا سرما۔ زیور کے نام پہ کانوں میں لٹکتی سونے کی ہلکی سی بالیاں اور ناک میں چمکتا سستا سرخ نگ کا لونگ۔ چادر بھی سستی مگر صاف ستھری اور پاؤں میں ہوائی چپل ۔
کیا بات ہے بی بی؟ کون ہو تم؟ میں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا۔
میں نوراں ہوں مولوی صاحب۔ اس نے چادر کے پلو سے ناک پونچھتے ہوئے کہا۔
نوراں؟ نوراں کنجری؟ میرے تو گویا پاؤں تلے زمین ہی نکل گئی۔ میں نے ادھر ادھر غلام شبیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نبیل کی مرہم پٹی کرا کے اور اس کو اس کے ۔۔۔
باقی بریک کے بعد

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ فورٹین
------
جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری۔ میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی۔
خون بہتا دیکھ کر مجھے میرے سر کا درد بھول گیا اور میں نے گھبرا کر غلام شبیر کو آواز دی۔ وہ غریب بھاگتا ہوا آیا اور بچے کو اٹھا کر پاس والے ڈاکٹر کے کلینک پر لے گیا۔ خدا کا شکر ہوا کہ چوٹ گہری نہیں لگی تھی۔ مرہم پٹی سے کام چل گیا اور ٹانکے نہ لگے۔ خیر باقی بچوں کو فارغ کر کے مسجد کے دروازے پہ پہنچا ہی تھا کہ چادر میں لپٹی ایک عورت نے مجھے آواز دے کر روک لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ عورت دہلیزپہ کھڑی مسجد کے دروازے سے لپٹی رو رہی تھی۔

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ تھرٹین
----
قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا۔ یوں تو اس میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا۔ تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا۔ بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا۔ میں بھی درگزر سے کام لیتا کہ چلو بچہ ہے۔لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا۔ غلام شبیر سے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھائیں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا۔ درد کے باوجود اور غلام شبیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا۔ نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا۔ کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو۔ جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گئیں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور ۔۔۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ٹویلو
-----
میں سوچ میں پڑ گیا۔ گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا۔ گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی۔ دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگائے میری منتظر تھی۔
اب بات ہوجائے قرآن پڑھنے والے بچوں کی۔ تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے۔ ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے۔ تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے۔نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے۔ دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے۔ کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نہ کسی نے بتایا۔ لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا۔

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ الیون
-----
یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا۔ ہم شریف لوگ ہیں غلام شبیر، بھوکے مر جائیں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھائیں گے
میرے تیور دیکھ کر غلام شبیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سےنوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نہ آیا۔
جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کہ اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ بس ٹبی مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ ایک دن میں نے غلام شبیر سے پوچھا کہ میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟ وہ ہنس کر بولا،
میاں جی الله کے گھر کا کیا نام رکھنا؟”
پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا۔ سب مسجدوں کا ہوتا ہے۔” میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا
بس میاں جی بہت نام رکھے۔ جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے۔آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں۔ وہ سر کھجاتا ہوا بولا

Jaavi
 

نوراں کنجری - پارٹ ٹین
-----
میاں غلام شبیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآئے؟
غلام شبیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر۔ میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں۔
میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا میرے سر پہ
میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں۔ پیشہ کرتی ہے جی
پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ
غلام شبیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر۔ تھوڑی دیر بعد ہمت کر کے بولا:
میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کا نہیں کھائیں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں
یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا۔

Jaavi
 

نوراں کنجری ۔ پارٹ نائن
-----
انہی شروع کے ایام میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پہ کسی نے دستک دی۔ غلام شبیر نے جا کر دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا۔ میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا۔
نوراں نے کھانا بھجوایا ہے۔ پڑوس میں رہتی ہے۔
میں کچھ نہ بولا اور نہ ہی مجھے کوئی شک گزرا۔ سوچا ہوگی کوئی الله کی بندی۔ اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے۔ بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کہ یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتائے احسان کیے جا رہی ہے۔عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبیر کو آواز دے کر بلایا اور پوچھا

Jaavi
 

نوراں کنجری- پارٹ ایٹ
-----
پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟ میں نے گھبرا کر پوچھا۔
غلام شبیر ہنسنے لگا۔ کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی۔ پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے۔ بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب۔ اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ…۔۔ کہاں اس جہنم میں پھنس گئے۔ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا۔
آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھائیں۔ دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے۔ ان کو قرآن پڑھا دیں۔ باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں۔ بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں۔ غلام شبیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آئی۔