آئینہ وہ واحد ساتھی ہے, جو آپ کے ہنسنے پے ہنستا ہے, اور آپ کے رونے پے روتا ہے ✔💯🙂💔
💘کبھی ھم سے بھی دو پل کی ملاقات کر لیا کرو💔
💘 آج ھم ترس رھے ھیں کل تم ڈھونڈتے رہ جاؤ 💔
دنیا تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے🖤
اک میں ہوں مجھے تیری پڑی ہے🥀
"پہلے آ جاتی تھی __قابو میں اُداسی پر اب
ایسی وحشت ھے کہ لوں سانس تو دل دُکھتا ھے".
ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﺩﻥ __ ﺍﮔﺮ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺑﯿﮕﺎﻧﮕﯽ ﺭﮨﯽ۔۔۔۔
ﺩﺳﺘﮏ ﺟﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﺁﺅ ﮔﮯ ، ﺩﺭ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ۔۔۔۔
مجھ سے نفرت کے تیرے دعوے ایک جگہ💔
مگر میرا نام سن کر تیرا پلٹنا کمال تھا😍
تُو اب اُداس جو بیٹھے گا سامنے اُن کے۔۔۔
تو پھر وہ رحم کریں گے "محبتیں" تو نہیں۔۔
اس عہد کم ظرف کے لوگوں کا نیا ہی رونا ہے
وہ کھانسیں تو کھانسی ہے ہم کھانسیں تو کرونا ہے
’’اُردُو کا کمرہ جماعت
اُستاد : گالی کسے کہتے ہیں؟؟ 😎😎😎😎
شاگرد : ’’ اِنتہائی غُصَّے کی حالت میں جِسمانی طور پر تَشَدُّد کرنے کے بجائے زُبانی طور سے کی جانے والی پُرتَشَدُّد لفظی کارروائی کے لیے مُنتَخِب الفاظِ غَلِیظَہ , اندازِ بَسِیطَہ , لِہجئِہ کَرِیہہ اور اَثرَاتِ سَفِیہہ کے مَجمُوعے کا اِستعمال ؛ جِس کی اَدَائیگی کے بعد اِطمینان وسُکُون کی نَاقَابِلِ بَیَان کَیفِیَّت سے قَلب بِہرَہ وَر ہو جاتا ہے اور اِس طَرح مُقَابِل جِسمَانی تَشَدُّد کی بہ نِٔسبَت زِیَادَہ مَجرُوح اور شِکَستَہ ہو جاتا ہے اُسے گالی کہتے ہیں۔۔۔۔‘‘
اُستَاد صَاحَب غَش کھا کر کُرسی سے نِیچے گِر گئے😳😂
میں دل میں سجا کر تیری یادوں کے کھلونے،
بچہ نہیں ہوں پھر بھی مگر کھیل رہا ہوں
میں دل میں سجا کر تیری یادوں کے کھلونے،
بچہ نہیں ہوں پھر بھی مگر کھیل رہا ہوں
نوراں کنجری - آخری حصہ
-----
میاں جی میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سنٹر والوں کو لے کے آئے ہیں۔ وہ ہی لوگ بچوں کو لے جائیں گے۔ ان غریبوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ غلام شبیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
میں نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور غلام شبیر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نوراں کے دروازے کی جانب بڑھ گیا
کہاں چلے میاں جی؟ غلام شبیر نے حیرانگی سے پوچھا
نوراں کے بچوں کو لینے جا رہا ہوں۔ آج سے وہ میرے بچے ہیں اور ہاں مسجد کا نام میں نے سوچ لیا ہے۔ آج سے اس کا نام نور مسجد ہوگا۔
تحریر: شہریار خاور
نوراں کنجری - پارٹ تھرٹی ٹو
-----
غلام شبیر نے حیرانگی سے میری آنسوں سے تر داڑھی دیکھتے ہوئے کہا
کیا کہوں غلام شبیر ؟ کہ کیوں روتا ہوں۔ وہ ناپاک نہیں تھی۔ ناپاک تو ہم ہیں جو دوسروں کی ناپاکی کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں۔ نوراں تو الله کی بندی تھی۔ الله نے اپنے گھر بلا لیا۔ میری ندامت بھری ہچکیاں بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور غلام شبیر نہ سمجھتے ہوئے مجھے تسلی دیتا رہا۔
ٹیکسی محلے میں داخل ہوئی اور مسجد کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اُترا ہی تھا کہ نوراں کے دروازے پہ نظر پڑی۔ ایک ہجوم اکٹھا تھا وہاں
کیا بات ہے غلام شبیر؟ لوگ اب کیوں اکٹھے ہیں؟
میاں جی میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سنٹر والوں کو لے کے آئے ہیں۔ وہ ہی لوگ بچوں کو لے جائیں گے۔ ان غریبوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے۔ غلام شبیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
نوراں کنجری - پارٹ تھرٹی ون
---
کہنے کو تو طوائف تھی میاں جی مگر میں گواہ ہوں۔ غریب جتنا بھی کماتی بچوں پہ خرچ کر دیتی۔ بس تھوڑے بہت الگ کر کے حج پہ جانے کے لئے جمع کر رکھے تھے۔ وہ بھی اس کا قاتل لوٹ کر لے گیا۔
یہ بتاؤ غلام شبیر، جب میں نے اس کی درخواست جمع کرانے سے انکار کیا تو اس نے کیا کہا؟ مجھ پر حقیقتوں کے در کھلنا شروع ہو چکے تھے
بس میاں جی، کیا کہتی بیچاری۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اور کہنے لگی کہ بس تو ہی اس کنجری کو بلائے تو بلا لے۔ مجھ پر تو پوچھو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ تأسف کی ایک آندھی چل رہی تھی۔ ہوا کے دوش میری خطائیں اڑرہی تھیں۔ گناہوں کی مٹی چل رہی تھی اور میری آنکھیں اندھیائی جا رہی تھیں۔
آپ کیوں روتے ہیں حاجی صاحب؟ آپ تو ناپاک کہتے تھے اس کو۔ غلام شبیر نے حیرانگی سے میری آنسوں سے تر
نوراں کنجری- پارٹ تھرٹی
----
قاتل کا کچھ پتا چلا؟ میں ابھی بھی حیرانگی کی گرفت میں تھا۔
پولیس کے پاس اتنا وقت کہاں میاں جی کہ طوائفوں کے قاتلوں کو ڈھونڈے۔ اس بیچاری کی تو نمازجنازہ میں بھی بس تین افراد تھے: میں اور دو گورکن۔ اس نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا
اور اس کے بچے؟ ان کا کیا بنا؟’ میں نے اپنی آنکھوں میں امڈ تی نمی پونچھتے ہوئے دریافت کیا۔
نوراں کے بچے نہیں ہیں میاں جی۔ غلام شبیر نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ طوائفوں کے محلے میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر اسے راتوں رات اٹھا کر کوڑے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ سب ایسے ہی بچے تھے۔ نوراں سب جانتی تھی کہ کس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ بس لڑکا ہوتا تو اٹھا کر اپنے گھر لے آ تی۔ کہنے کو تو طوائف تھی میاں جی مگر میں گواہ ہوں۔
نوراں کنجری- پارٹ ٹونٹی نائن
---
میں نے اس کے لہجے میں چھپی اداسی کو اپنی غلط فہمی سمجھا
مکّے شریف میں ملاقات ہوئی تھی؟ مذاق نہ کریں میاں جی۔ نوراں تو آپ کے جانے کے اگلے ہی دن قتل ہوگئی تھی۔ اس نے گویا میرے سر پر بم پھوڑ دیا۔
قتل ہوگئی تھی؟ میں نے اچنبھے سے پوچھا
جی میاں جی۔ بیچاری نے حج کے لئے پیسے جوڑ رکھے تھے۔ اس رات کوئی گاہک آیا اور پیسوں کے پیچھے قتل کر دیا غریب کو۔ ہمیں توصبح کو پتا چلا جب اس کے بچوں نے اس کی لاش دیکھی۔ شور مچایا تو سب اکٹھے ہوئے۔ پولیس والے بھی پہنچ گئے اور اس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئے۔ ابھی کل ہی میں مردہ خانے سے میّت لے کے آیا ہوں۔ آج صبح ہی تدفین کی اس کی۔ غلام شبیر کی آواز آنسوؤں میں بھیگ رہی تھی۔
قاتل کا کچھ پتا چلا؟ میں ابھی بھی حیرانگی کی گرفت میں تھا۔
نوراں کنجری - پارٹ ٹونٹی ایٹ
---
اہور ائیرپورٹ پر غلام شبیر پھولوں کے ہاروں سمیت استقبال کو آیا ہوا تھا۔
بہت مبارک باجی۔ بہت مبارک میاں جی۔ بلکہ اب تو میں آپ کو حاجی صاحب کہوں گا۔ اس نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو مبارک دی تو میری گردن حاجی صاحب کا لقب سن کراکڑ گئی۔ میں نے خوشی سے سرشار ہوتے ہوئے اس کے کندھے پہ تھپکی دی اور سامان اٹھانے کا اشارہ کیا۔
ٹیکسی میں بیٹھے۔ میں نے مسجد اور گھر کی خیریت دریافت کی تو نوراں کا خیال آ گیا۔
میاں غلام شبیر، نوراں کی سناؤ۔ میرا اشارہ اس کی حج کی درخواست کے بارے میں تھا۔
اس بیچاری کی کیا سناؤں میاں جی؟ لیکن آپ کو کیسے پتا چلا؟ اس نے حیرانگی سے میری جانب دیکھا
بس ملاقات ہوئی تھی مکّے شریف میں۔ میں نے اس کے لہجے میں چھپی اداسی کو اپنی غلط فہمی سمجھا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain