مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا . اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا . یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا . اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا
ہم صاحب انا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے مغرور، بے وفا ہیں، ہمیں تنگ نہ لیجئے . . ہم کون ہیں ؟ کہاں ہیں؟ اسے بھول جائیے جیسے بھی ہیں، جہاں ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے . . بہتر ہے ہم سے دور رہیں صاحب کمال ہم صاحب خطا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجئے
نہ جانے کیا ہے کہ جب بھی میں اس کو دیکھتا ہوں تو کوئی اور مرے رو بہ رو نکلتا ہے . لیے دیئے ہوئے رکھتا ہے خود کو وہ لیکن جہاں بھی غور سے دیکھو رفو نکلتا ہے Heart touching poetry
وہ اور محبت سے مجھے دیکھ رہا ہو کیا دل کا بھروسا مجھے دھوکا ہی ہوا ہو . ہوگا کوئی اس دل سا بھی دیوانہ کہ جس نے خود آگ لگائی ہو بجھانے بھی چلا ہو . اک نیند کا جھونکا شب غم آ تو گیا تھا اب وہ ترے دامن کی ہوا ہو کہ صبا ہو . دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا شاید ہی کبھی میں نے تجھے یاد کیا ہو . زیبؔ آج ہے بے کیف سا کیوں چاند نہ جانے جیسے کوئی ٹوٹا ہوا پیمانہ پڑا ہو
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں . کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں . کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں . اک حسیں آنکھ کے اشارے پر قافلے راہ بھول جاتے ہیں
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں . منتظر ہیں دم رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں . کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں . خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں . مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں . دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں . زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں
بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا . جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا . غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا . شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا . ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا . ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا
اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ تو میں تمہارا . یا اس پہ مبنی کوئی تأثر کوئی اشارا تو میں تمہارا . غرور پرور انا کا مالک کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے . مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا تو میں تمہارا . تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو میں جیسے چاہے لگاؤں بازی . اگر میں جیتا تو تم ہو میرے اگر میں ہارا تو میں تمہارا . تمہارا عاشق تمہارا مخلص تمہارا ساتھی تمہارا اپنا . رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا تو میں تمہارا . یہ کس پہ تعویذ کر رہے ہو یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے . تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ تو میں تمہارا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain