کبھی تنہا سمندر کے کنارے بیٹھ کر دیکھو کہ لہریں شور کرتی ہیں مگر خاموشی ہوتی ہے وہ اپنی راہ چلتی ہیں کسی سے کچھ نہیں کہتی عجیب سی بات ہے لیکن بہت کچھ وہ بھی سہتی ہیں انہیں معلوم ہے کوئی کسی کا کچھ نہیں ہوتا کسی سے کچھ نہیں سنتا کہ جس نے سننا ہوتا ہے اسے کہنا نہیں پڑتا اسے کہنا نہیں پڑتا...!!!
حال کُھلتا نہیں جبینوں سے رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے رات آہستہ گام اُتری ہے درد کے ماہتاب زینوں سے ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے کون لے گا شرارِ جاں کا حساب دشتِ امروز کے دفینوں سے تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی شہر خالی نہ تھا مکینوں سے آشنا آشنا پیام آئے اجنبی اجنبی زمینوں سے جی کو آرام آ گیا ہے اداؔ کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے اداؔ جعفری **