جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ۔۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ۔۔۔ یہی تجھ کو ُدھن ہے رھوں سب سے اعلی ۔۔ ہو زینت بھی اچھی ، سب سے فیشن نرالا ۔۔ جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا ؟ تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا ۔۔ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ۔۔۔ یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ۔۔۔
یہ تم سے کہ دیا کس نے ؟۔۔۔۔۔کے تم بن رہ نہیں سکتے ۔۔۔۔یہ دکھ ہم سہ نہیں سکتے ۔۔چلو یہ مان لیتے ہیں ۔۔۔کے تم بن ہم بہت روۓ ۔۔۔۔ کئی راتوں کو نہ سوۓ ۔۔۔۔ مگر افسوس ہے جاناں۔۔۔۔۔ ،کے اب کے تم جو لوٹو گے ۔۔۔۔۔۔۔، ہمیں تبدیل پاؤ گے ۔۔۔۔۔، بہت مایوس ہو گے تم ۔۔۔۔، اگر تم پوچھنا چاہو کے ایسا کیوں کیا ہم نے ۔۔۔۔۔۔، تو سن لو غور سے جاناں ۔۔۔۔۔۔، پرانی اک روایت تنگ آ کر توڑ دی ہم نے ۔۔۔۔۔۔ ، محبّت چھوڑ دی ہم نے ۔۔۔۔۔۔ ، محبّت چھوڑ دی ہم نے ۔۔۔۔۔
جا رہے ہیں دما دم سے، آپ سب اپنا خیال رکھنا ۔۔۔ خطائیں یقیناً ہوئی ہیں ہم سے اگر جو سمجھو ، تو معاف کرنا ۔۔ جہان فانی ہے یہ میرے یارو ،نہیں ہے رہنا سدا کسی نے ۔۔۔ دیا جو موقع ہمیں زندگی نے،پھر آپ سب سے ہی بات ہو گی ۔۔ میری گزارش نہ بھول جانا ،رنجشیں ساری دل سے مٹانا ۔۔۔ مجھے معاف کرنا ،واسطے خدا کے ،مجھے معاف کرنا ۔۔۔۔ اللّه حافظ بابر
میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ھوں دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے اب تو اُس آخری انکار کو مدت گذری اب بھی اُس حسنِ جفا کیش سے ناتا کیوں ہے لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے
چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے آ ہی جاتا ھے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ھے آسرا اجنبی دیوار بھی دے دیتی ھے یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ھے روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ھوں دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ھے کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر ہرشیشہ ٹوٹ جاتا ہےپتھر کی چوٹ سے پتھر ہی ٹوٹ جائے، وہ شیشہ تلاش کر سجدوں سےتیرےکیاہواصدیاں گزرگئیں دنیا تیری بدل دے، وہ سجدہ تلاش کر کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو پیدل ہی خود چلے جو وہ آقا تلاش کر. علامہ اقبال