اس حکایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی استاذ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے درس میں شہد کے جیسی چاشنی نہیں، یعنی طلبہ دلچسپی نہیں لیتے تو دو وجوہات ہو سکتی ہے : پہلی وجہ یہ کہ اس استاذ نے شہد کی مکھی کی طرح پھول پھول کا دورہ نہیں کیا۔ یعنی تیاری کے لیے صرف ایک کتاب پر تکیہ کر لیا۔ دوسرا یہ کہ شہد کی مکھی کی طرح اس استاذ نے پھولوں کا رس نکال کر شہد بنانے کے بجائے طلبہ کے سامنے کڑوے پھول لا کر رکھ دیے۔ یعنی جیسا کتاب میں پڑھا تھا ویسا کا ویسا طلبہ کو سنا دیا۔ اگر اس میں طلبہ کے ذہنوں کے مطابق مثالیں شامل ہوتی، تختہ سیاہ یا دیگر تعلیمی آلات سے مدد لی جاتی، مناسب سرگرمیوں کا انتخاب کیا جاتا تو اس محنت کا نتیجہ میٹھے شہد کی صورت میں نکلتا۔ استاذ کا کام شہد کی مکھی کے کام کی طرح سخت اور تھکا دینے والا ہے۔د
سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ میٹھے شہد (خلاصے) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی حفاظت فرمائے جو انبیاء کے اس کام سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے ہر استاذ اور استانی کے لیے سلامتی ہو۔
*استاذ، پھول اور میٹھا شہد* ایک طالبِ علم نے اپنے استاذ صاحب سے عرض کیا: استاذ محترم! آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔ لیکن جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے۔ استاذ صاحب نے فرمایا: شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے؟ ایک طالب علم نے جواب دیا : پھولوں کے رس سے۔۔۔ استاذ صاحب نے پوچھا : اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہو گا؟ طالب علم نے جواب دیا : کڑوا ہوگا! استاذ صاحب نے فرمایا : اے میرے بیٹے! درس وتدریس کا شعبہ بھی شہد کے مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاذ شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں (کتب، تجربات، مشاہدات) کا دورہ کرتا ہے اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا
آپ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے,انسان ساری زندگی اس فریب میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے اہم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہونے نا ہونے سےکسی کو فرق نہیں پڑتا,یہاں تک کہ مر جانے سے بھی کسی کی زندگی پر کوئ فرق نہیں آئے گا یہی لوگ ریسٹ ان پیس اور فلینگ سڈ یا بروکن کا سٹیٹس دے کر اپنی اپنی زندگی کی رعنائیوں میں گم ہو جائیں گے یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے ہم جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے ہی ہیں.
کرنے کے لیئے اچھا شریف ذمےدار اور کمانے والا عزت کرنے والا شخص چنیں۔۔۔ محبوب نہیں۔۔۔ جب شوہر پیٹ بھرنے والا اور عزت کرنے والا ہو تو محبت لازمی ہو جاتی ہے۔۔۔ آپ نہیں جانتیں کہ کون بہترین ہے۔۔۔ اللہ جانتے ہیں۔۔۔ اس لیئے رب کے فیصلوں پہ سر جھکائیں۔۔۔ دل کے آگے نہیں۔۔۔ ورنہ یہ دل آپ کو رلانے اور خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا---
جو یہ لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بس محبوب مل جائے تو اور کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔ محبوب کے ساتھ زندگی جیسی بھی ہوئی گذار لیں گے۔۔۔ جب پیٹ میں روٹی نا ہو۔۔۔ کہیں جانے کے لیئے ڈھنگ کا سوٹ نا ہو۔۔۔ جب برسوں بھی پسند کا کھانے کو نا ملے۔۔۔ جب محبوب لاپرواہ ہو۔۔۔ جب وہ آپ کو لے جا کر سسرال والوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر بھول جائے۔۔۔ جب اولاد تکلیف سے تڑپ رہی ہو اور دوا کے پیسے نا ہوں۔۔۔ جب محبوب باہر مزید عورتوں پہ اپنی عاشق مزاجی کے سبب فدا ہو رہا ہو۔۔۔ جب شادی کے چند دن بعد ہی محبت کا سیاپا ختم ہو کر اصل زندگی شروع ہو جائے۔۔۔ جب رہنے کو گھر اچھا نا ہو۔۔۔ جب بات بات پڑ لڑائی ہونے لگے۔۔۔ ساری محبت غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ میری ایک بات لکھ کر رکھ لیں۔۔۔ محبوب بدل سکتاہے۔۔۔ لیکن اچھا انسان نہیں بدلتا۔۔۔ نکاح کرنے کے لیئے اچھا شریف ذمےدار اورکمانے والا عزت کرنا
خود غوطے کھانے لگا وہ بہت زیادہ گہری سیوریج کی نہر تھی قریب ہی تھا کہ وہ بچا مر جاتا لیکن دیہاتی نے اپنی جان پر کھیل کر اُس بچے کو گندی نہر سے نکال لیا۔ جونہی وہ دیہاتی باہر نکلا اُس نے فوراً بچے کو اُلٹا لٹکا دیا جِس سے اُس بچے کہ مُنہ سے بہت سا گندا پانی باہر نکلا اور بچے کی سانس بحال ہو چُکی تھی وہ بہت زیادہ رو رہا تھا ۔ ماں اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر رو رہی تھی ۔ دیہاتی کے چہرے پر عجیب خوش نُما چمک تھی لیکن اُس کے سفید کپڑے کیچڑ سے لٙت پٙت ہو چُکے تھے جِس کی وجہ سے لوگ دور سے کھڑے اُسے شاباش دے رہے تھے۔ وہ عورت آگے بڑھی اور دیہاتی کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی بھائی تُم فرشتہ ہو تُم نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے۔ دیہاتی بولا میں کوئی فرشتہ نہیں میں تو ایک انسان ہوں اور انسان کا فرض ہے دوسروں کی مدد کرنا۔ وہ عورت بولی اگر تُم انسان ہو ت
💫 _*دیہاتی فرشتہ*_ 💫 گندی نہر کے اِرد گِرد لوگوں کی بھیڑ جمع تھی سب شور مچارہے تھے کوئی کہہ رہا تھا گیارہ بائیس کو فون کرو تو کوئی کہہ رہا تھا کہ واسا والوں کو فون کرو۔ ایک عورت کو لوگوں نے پکڑ رکھا تھا وہ چِلا رہی تھی میرا بیٹا مر رہا ہے اگر خود نہیں بچا سکتے تو مجھے نہر میں جانے دو میں اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی لیکن لوگوں نے اُس کو پکڑ رکھا تھا اور کہہ رہے تھے نہر بہت زیادہ گہری ہے وہاں کوئی بھی نہیں جاسکتا۔ ایک دیہاتی بھیڑ دیکھ کر وہاں رک گیا اُس نے اپنا سائیکل وہاں کھڑا کیا اور بھیڑ میں گُھس کر آگے نکل گیا آگے پہنچ کر وہ حیران ہوا کہ ایک بچہ نہر میں غوطے کھا رہا ہے اور سب چُپ چاپ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ اُس نے بِنا کچھ سوچے سمجھے گندی نہر میں چھلانگ لگا دی۔ نہر میں جاکر وہ دیہاتی خود غوطے کھانے لگا وہ بہت