بس آج کل ٹانگیں بکتی ہیں چھاتیوں کا تن تناؤ اور ناف کی وادی بھاؤ لگتا ہے جسم کی منڈی میں رانوں کا چھلکتا ماس ، اور کہولوں کا اتار چڑھاؤ بکتا ہے ، میک اپ کے گارے کے نیچے قیدی عورت کو آزادی کی چوسنی خوب چسائی جاتی ہے تم آزاد ہو کا نعرہ لگوا کر حقوق نسواں کی چٹنی بکتی ہے
احساس ایک عظیم شے ہے جس کے پاس ہے وہی دُنیا میں سکندر ہے قربان جاوں خلیل الرحمن قمرصاحب تو صرف اچھے ڈرامے ہی نہیں لکھتا بلکہ بہت اچھی چھترول بھی کرسکتا ہے خلیل الرحمن قمر کا سونے سے لکھنے کے لائق ایک جملہ/ تیرے جسم میں ہے کیا؟ تمہارے جسم پر کوئی تھوکے گا بھی نہیں، شکل دیکھو اپنی الو کی پٹھی اور پھر اُسی دن سے مختلف ٹی وی چینلز پر یہ کہرام مچ گیا کہ لبرلز آنٹی کی بے عزتی ہوٸی ہے ارے بے عزتی تو عزت والو کی ہوتی ہے یہ توکوئی تنقید نہیں یہ تومیڈیا کا دہرا معیار ہے، ورنہ چند لَنڈے کے لبرل کے علاوہ تو باقی پوری قوم خلیل الرحمن قمر صاحب کو دل کی آتہاہ گہراٸیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتی پھیر رہی ہے کہ اُس نے ماروی سرمد کی جو بہترین طریقے سے نہایت ہی بہترین طریقے سے کی جو اکیلی ماروی سرمد ہی نہیں اُسکےچھترول کی بلکل ایک فرض شناس پولیس اہلکار کی طرح