ہس یا راتے رو میں پورا ہونا ایں
میں فجراں دی لو میں پورا ہونا ایں
ازلاں توں میں دھوڑ جو اُڈدی واندی اے
میری مٹی گو میں پورا ہونا ایں
اجے تاں پورا تینوں کردا وانا میں
توں ہُن پورا ہو، میں پورا ہوناایں
چیتر چیت بہاراں آؤنا ویکھ لویں
رُت ونڈنی خوشبو میں پورا ہونا ایں
جھٹ ہک ویکھ کے تماشا نظراں دا
جھٹ ہک یار کھلو میں پورا ہونا ایں
رات چڑی دے بوہے اگے آ گئی اے
رکھیں جھٹ کنسو میں پورا ہونا ایں
اجے ایہہ گھانی کد کسے دا تھوبا نہیں
پیر اجے نہ دھو میں پورا ہونا ایں
میری موت تے گونگے اتھرو نہ بھئی نہ
مینوں پِٹ کے رو میں پورا ہونا ایں
جیہڑی ہجر پڑھا وی سور کے اللہ نوں
ناصر نیتیں سو میں پورا ہونا ایں
پاہلوں ویڑھا حد بندا اے
مُڑ جا روڑا کد بندہ اے
انکھ دا لنبو پاہلوں تتا
بن دا بن دا ٹھڈھ بندا اے
ویکھ کے تینوں سنبھلن تیکر
چوکھا سارا پدھ بندا اے
حالی رنگاں اولھے بیٹھاں
ویکھو منظر کد بندا اے
لاش توں کھونویں پرچھاواں تے
مُڑ ہستی دا رد بندا اے
اپنے آپ چوں آپے نکلے
بندہ بندہ تد بندا اے
مینوں پورا حصہ دیوو
میرا میں وچ ادھ بندا اے
رُس کے ٹریا جاندا ای ناصر
تیرا مگروں سد بندا اے
ہم نے دیکھا تو ہم نے یہ دیکھا
جو نہیں ہے وہ بہت خوبصورت ہے
میں تیرا ایک دن تھا دن کا کچھ حصہ سہی
تو میرا اک عرصہ تھا ہزاروں سال رہا
آج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا
ایک مدت تک میں اُن آنکھوں سے بہتا رہ گیا
میں اُسے ناقابل ِ برداشت سمجھا تھا مگر
وہ مرے دل میں رہا اور اچھا خاصہ رہ گیا
وہ جو آدھے تھے تجھے مل کر مکمل ہو گئے
جو مکمل تھا وہ تیرے غم میں آدھا رہ گیا
جسم کی چادر پہ راتیں پھیلتی تو تھیں مگر
میرے کاندھے پر ترا بوسہ ادھورا رہ گیا
وہ تبسم کا تبرک بانٹتا تھا اور میں
چیختا تھا اے سخی پھر میرا حصہ رہ گیا
آج کا دن سال کا سب سے بڑا دن تھا تو پھر
جو ترے پہلو میں لیٹا تھا وہ اچھا رہ گیا
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو
شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو
بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں
رنگ و رس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس ٹس سے مس اور بس
سب تماشائے کن ختم شد
کہہ دیا اس نے بس اور بس
کیا ہے مابینِ صیاد و صید
ایک چاکِ قفس اور بس
اس مصور کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
خود پرستی سے عشق ہو گیا ہے
اپنی ہستی سے عشق ہو گیا ہے
جب سے دیکھا ہے اس فقیرنی کو
فاقہ مستی سے عشق ہو گیا ہے
ایک درویش کو تری خاطر
ساری بستی سے عشق ہو گیا ہے
خود تراشا ہے جب سے بت اپنا
بت پرستی سے عشق ہو گیا ہے
یہ فلک زاد کی کہانی ہے
اس کو پستی سے عشق ہو گیا ہے
کریم ذات نے جس غم کا بھی نزول کیا
نصیب مان کے ہم لوگوں نے قبول کیا
نجس جگہ پہ محبت کبھی نہیں پَلتی
سو میں نے پہلے مِری روح کو بتول کیا
حضور ! عشق نے عزت خراب کی ، سو کی
ہمارا پھول نما چہرہ بھی ملول کیا
برا نہ مان ! ہَوس ایک پاک جذبہ ہے
خدا نے یونہی نہیں حور کا نزول کیا
جہانِ فانی سے مایوس ہو رہے تھے لوگ
سو ہم نے عالَمِ اشعار میں دخول کیا
کفیل کار تھے ہم گھر کے سو ہمارے لیے
گُنہ تھا عشق ، مگر ہم نے کی یہ بھول ، کیا !
کسی سے پیار کرو تو پتہ چلے افکار
کہ تم نے جو بھی کیا اب تلک فضول کیا
مختلف رنگوں سے دنیا ہم کو سمجھاتی رہی
اپنی فطرت پھر بھی دیہاتی کی دیہاتی رہی
خالقا وے خالقا ہم تو ترے شہکار تھے
لے تِری دنیا تِرے شہکار ٹُھکراتی رہی
کون مومن ، کون ملحد بارگاہِ عشق میں
مجلسیں پڑھتی تھی وہ اور میرے گُن گاتی رہی
عشق میں مرنے کی باتیں کرنے والی کل ملی
اُتنی ہی خاموش تھی وہ جتنی جذباتی رہی
ہر حوالے سے کسی کے ہم حوالے ہو گئے
پر 'خوشی' پہلی محبت کی حوالاتی رہی
چھوڑیے یہ سوچنا بھی کیوں کہ اس نے کیا کیا
وہ مجھے بھانے لگی تھی ، بھا گئی ، بھاتی رہی
بات پَلّے باندھ ! 'بے حد رحمدِلّی' عیب ہے
جو بھی میٹھا ہو گیا دنیا اسے کھاتی رہی
مِری جان ! میں نے تو رو لیا ہے نکال لی ہے بھڑاس بھی
مری بے قراری اُسی طرح ، میں اُسی طرح ہوں اداس بھی
جونہی بات پہنچی فلک تلک ، مِری چھت زمین سے آ لگی
مِرا دُکھ سمجھ ! مِری ہڈّیوں سے اتر گیا مِرا ماس بھی
مِرا غم بھی دوسروں جیسا تھا میں بتا سکا نہ منا سکا
بڑی بے سکونی رہی مجھے ، مرے غمگسار کے پاس بھی
بھلا عاشقی کا قصور کیا ، میں اگر نکھر نہیں پا رہا
یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے نہیں آتی سب کو یہ راس بھی
بڑے لوگ تھے جو ضرورتوں کی نذر ہوئے ، بڑے لوگ تھے
نہیں اب کسی بھی شمار میں ، رہے بے شماروں کے خاص بھی
میں بہت ہنسا ، مرے سامنے وہ بھی منہ چھپا کے گزر گیا
وہ بدل گیا ، مِرے سامنے جو بدل چکا ہے لباس بھی
اُسے سوچتا ہوں تو بدحواسی میں کوستا ہوں طلب کو میں
مِرے بس میں ہوتا تھا میں بھی ، میرے حواس بھی ، مِری پیاس بھی
دل کی باغ میں اک تنہا گل خواب ہے کھلا
اس کی خوشبو ہے، باغ کی پریشانیوں کا سلاہ۔
ہر شعر میں، میں محبت کی کہانی بناتا ہوں
ایک خوابوں کا موسیقی، فضاؤں میں بجاتا ہوں۔
رات کی گہرائی میں، جب خاموشی حکمتمند ہوتی ہے
میں چاند کی نرم روشنی میں تسکین پاؤں۔
ایے محبوب، تیری غیرت میرے دل کی کانٹھ میں ایک کانٹا ہے،
لیکن تیری یاد میں، میں اپنی دوام لباتا ہوں۔
اوپر کے ستارے ہمارے عشق کی گلے لگانے کی گواہی دیتے ہیں
ایک بے پایاں رشتہ، وقت اور جگہ کو پار کرتا ہے۔
دنیا بدلے، موسم آئیں اور جائیں،
میری محبت، عزیز، بڑھتی رہے گی۔
کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ہو خدا ، خدا حافظ
میں ایک بار پریشاں ہوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ
تو جس کے پاس بھی جا ،جا تجھے اجازت ہے
تجھے خدا کے حوالے کیا ، خدا حافظ
مجھے تو کیسے خدا کے سپرد کر رہا ہے
میں تیرے ذمہ ہوں ، تو کہہ رہا خدا حافظ
میں دھاڑیں مار کے رویا کسی کی یاد آئی
جہاں کہیں بھی سنا یا پڑھا خدا حافظ
مکان گرتے رہے ، لوگ فوت ہوتے رہے
میں دیکھتا رہا ، کہتا رہا ، خدا ! حافظ
پھر ایک روز مقدر سے ہار مانی گئی
جبین چوم کے بولا گیا خدا حافظ
میں اس سے مل کے اسے دکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ہی جس نے کہا ، خدا حافظ
خدا نے آنکھ بنائی تھی دیکھنے کے لیے
نہ یہ کہ دیکھ کے اوروں کو مارنے کے لیے
تمام روحوں پہ مٹی کا ڈھیر تھونپا گیا
تمام روحیں مصیبت میں ڈالنے کے لیے
خدا نے خاک سے خاکے بنا کے پھینک دیے
بلندیوں سے یہاں خاک پھانکنے کے لیے
یہ اپنے دوست ہیں ، ان سے مذاق کرتا ہوں
نہیں تو شیخ نہیں ہوتے چھیڑنے کے لیے
انہیں بھی کام پہ تم نے لگا دیا ، حد ہے
جو کام چھوڑ کے آئے تھے بیٹھنے کے لیے
فضول الجھے رہے تم فضول چیزوں میں
تمہاری آنکھ ہی کافی تھی مارنے کے لیے
کبھی نہ روئے ، مجھے مل کے رو پڑا وہ شخص
جو میری قسمیں اٹھاتا تھا ، توڑنے کے لیے
پروردگار ! آوے کا آوا بگڑ گیا
یہ کس کو تیرے دین کے ٹھیکے دیے گئے
پروردگار ! ظلم پہ پرچم نگوں ہوا
ہر سانحے پہ صرف ترانے لکھے گئے
جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب مختیاری چھین
پروردگار ! اپنے خلیفے کو رسی ڈال
جو تیرے پاس وقت سے پہلے پہنچ گئے
پروردگار ! ان کے مسائل کا حل نکال
پروردگار ! صرف بنا دینا کافی نئیں
تخلیق کر کے بھیج تو پھر دیکھ بھال کر
ہم لوگ تیری کن کا بھرم رکھنے آئے ہیں
پروردگار ، یار ! ہمارا خیال کر
تجربہ تھا ، سو دعا کی ۔۔ تا کہ نقصان نہ ہو
عشق مزدور کو مزدوری کے دوران. . نہ ہو
💞 😔
گاؤں میں دور کی سسکی بھی سنی جاتی ہے
سب پہنچتے ہیں ، بھلے آنے کا اعلان نہ ہو
💞 🌷
ایک رقَّاصہ نے اک عمر یہاں رقص کیا
دل کی دھک دھک میں چھنن چھن ہے تو حیران نہ ہو
💐
اب تعوُّذ کو بدل دینے میں کیا رائے ہے
جہاں شیطان لکھا ہے ، وہاں انسان نہ ہو ؟
🙄
شکریہ ! مجھ کو نہ دیکھا ۔۔ مری مشکل حل کی
میری کوشش بھی یہی تھی ، مری پہچان نہ ہو
🌺
تو مرا حق ہے مگر شام تو ڈھل جانے دے
میری آنکھوں پہ ترس کھا ، ابھی عریان نہ ہو
منکر بنے یا خود کو سپرد_ خدا کرے ؟
خالق ہی سب کرے تو یہ مخلوق کیا کرے
ہاں یہ تو ہے کہ میرا عقیدہ خراب ہے
بندہ سمجھ کے چھوڑ دیں ، اللہ بھلا کرے
کوئی تو ہو کہ جسکو میں دکھڑے سنا سکوں
کوئی تو ہو جو مجھ کو دعائیں دیا کرے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain