Damadam.pk
LADLAANSARI's posts | Damadam

LADLAANSARI's posts:

LADLAANSARI
 

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ہو خدا ، خدا حافظ
میں ایک بار پریشاں ہوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ
تو جس کے پاس بھی جا ،جا تجھے اجازت ہے
تجھے خدا کے حوالے کیا ، خدا حافظ
مجھے تو کیسے خدا کے سپرد کر رہا ہے
میں تیرے ذمہ ہوں ، تو کہہ رہا خدا حافظ
میں دھاڑیں مار کے رویا کسی کی یاد آئی
جہاں کہیں بھی سنا یا پڑھا خدا حافظ
مکان گرتے رہے ، لوگ فوت ہوتے رہے
میں دیکھتا رہا ، کہتا رہا ، خدا ! حافظ
پھر ایک روز مقدر سے ہار مانی گئی
جبین چوم کے بولا گیا خدا حافظ
میں اس سے مل کے اسے دکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ہی جس نے کہا ، خدا حافظ

LADLAANSARI
 

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں ترے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے
کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے
مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مرا چہرہ نہ ملے
لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے ہمیں دیکھا ، نہ ملے
بس یہی کہہ کے اسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہیں مل جائے تو روتا نہ ملے
تم دعا کرتے رہو میرا سفر اچھا رہے
کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے
مجھ کو دیکھا تو مجھے ایسے لپٹ کر روئی
جیسے اک ماں کو کوئی گمشدہ بچہ نہ ملے
بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے

LADLAANSARI
 

ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار
تمام لوگ بہت خوش ہیں , اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مرے لوگ مر گئے افکار
وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو , آدھے کدھر گئے افکار
اساڈا ڈکھ , چھڑا ساڈا ھ .. کُئ کِنجے سمجھے
سو جگ ہنسائی ہوئی , ہم جدھر گئے افکار
ہماری آنکھ کھلی , تم نہیں تھے , خامشی تھی
لگا کہ بستی سے دریا گزر گئے افکار
تمہارے بعد ہمیں وسوسوں نے گھیر لیا
کسی نے ہنس کے بلایا تو ڈر گئے افکار
خدا بچائے کہ شہرت فریبی کتیا ہے
یہ صرف بھونکی , مرے بال و پر گئے افکار

alhamdullilah
L  : alhamdullilah - 
LADLAANSARI
 

کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں
جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو
مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے
خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو
صورتِ حال اپنے باہر کی
ہے ابھی تک زبوں، ذرا ٹھہرو
ہوتھ سے اپنے لکھ کے نام اپنا
میں تمہیں سونپ دوں، ذرا ٹھہرو
میرا دروازہ توڑنے والو
میں کہیں چھپ رہوں، ذرا ٹھہرو

LADLAANSARI
 

اب کسی سے مرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ مرا خون ہے شراب نہیں
میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین
تو مری آس ہے سراب نہیں
نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقت شوخئ جواب نہیں
اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اور خود جیسا اب دو آب نہیں
غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں
بودش اک رو ہے ایک رو یعنی
اس کی فطرت میں انقلاب نہیں

LADLAANSARI
 

سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا
آخرش خون تھوکنے سے میاں
بات میں تیری کیا اثر آیا
تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا
ہر طرف سے میں بے خبر آیا
اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے
نہیں آؤں گا میں اگر آیا
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر
آج میں اس سے بھی مکر آیا
مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا

LADLAANSARI
 

اب کسی سے مرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ مرا خون ہے شراب نہیں
میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین
تو مری آس ہے سراب نہیں
نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقت شوخئ جواب نہیں
اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اور خود جیسا اب دو آب نہیں
غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں
بودش اک رو ہے ایک رو یعنی
اس کی فطرت میں انقلاب نہیں

LADLAANSARI
 

خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا

LADLAANSARI
 

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

LADLAANSARI
 

ترک تعلق تو اس طرح نہ مجھ سے کرتا
کوئی شکایت تھی اگر تو گلہ مجھ سے کرتا
بچھڑ کے کیوں خود کو بھی اذیت دیتا ہے
اس کو کرنا تھا اگر تو برا مجھ سے کرتا
میں بے وفا تھا تو کیوں چھوڑ گیا مجھ کو
وہ جو باوفا تھا تو وفا مجھ سے کرتا
ہم میں اگر نہ ہوتی خودسری کی خو
کس کی جرات تھی تجھ کو جدا مجھ سے کرتا
ضرور کوئی مجبوری ہو گی راسخ ‘ ورنہ
یقیں نہیں آتا کہ وہ ایسا مجھ سے کرتا

LADLAANSARI
 

دلوں سے اٹھتا ہوا اک طوفان دیکھا ہے
جہاں بکتے تھے بدن اب ایمان دیکھا ہے
خزاں کا موسم پھر چمن میں نہیں لوٹا کہ
بہاروں میں اس نے اجڑتا گلستان دیکھا ہے
اپنے شہر کے حالات کی جن کو نہیں خبر
دعویٰ ہے ان کا ہم نے اک جہان دیکھا ہے
پھولوں کا ہار پہن کے مسکرانے والوں نے
کہاں کانٹوں میں الجھا کسی کا گریبان دیکھا ہے
کل پھر مہندی کی آرزو لئے جو مر جائے گی
ایسی ہی اک لڑکی کو میں نے جوان دیکھا ہے

LADLAANSARI
 

تجھ پر کسی اور کی بھی نظر ہے
تیری دیوانگی کا وہ چرچا کرتی ہے
اِک محبت کے غم میں توں ڈھل گیا
اِک عشق کی انتہا اب توں جان لے

LADLAANSARI
 

بات مقدر کی ہے ساری وقت کا لکھا مارتا ہے
کچھ سجدوں میں مر جاتے ہیں, کچھ کو سجدہ مارتا ہے
تیری کیا اوقات رے دنیا تو اور میرے منہ آئے
میں تو چیر کہ رکھ ڈالوں پر یار کا بولا مارتا ہے
صرف ہمِیں ہیں جو تجھ پر پورے کہ پورے مرتے ہیں
ورنہ کسی کو تیری آنکھیں, کسی کو لہجہ مارتا ہے,
شہر میں ایک نئے قاتل کے حسنِ سخن کے بلوے ہیں
اُس سے بچ کے رہنا شعر سنا کے بندہ مارتا ہے,
اب عُشاق کا میلہ ہو تو مجنوں کو بھی لے آنا
عاشق تو جیسا بھی ہے پر نعرہ اچھا مارتا ہے,
وہ تو علی زریون ہے بھائی اس کی گلی کا بچہ بھی
بات زرا سی غلط کہو تو مُنہ پہ مصرع مارتا ہے

LADLAANSARI
 

کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر
میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں
اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں
ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا
تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں
تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں
تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں
تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں
جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی
کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی
میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں
ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں
میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے
رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے
میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں
تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں
اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا
اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا

LADLAANSARI
 

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

LADLAANSARI
 

آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہ شب تاب کے نکلتے ہی
تو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکس دیوار کے بدلتے ہی
خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

LADLAANSARI
 

خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا
ملا جو پھر تو یوں کہ وہ ملال میں ملا مجھے
تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا
عمل گزشتہ دور کا مثال میں ملا مجھے
ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے
نشاں کمال فکر کا زوال میں ملا مجھے
نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیرؔ
کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھے

LADLAANSARI
 

غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

LADLAANSARI
 

میرے گائوں میں مجھے دیکھنے آیا ہوگا
سیر کرنے تو کاغان بھی جا سکتا تھا
بات سن کر جو گیا ہے تو یہی پیار ہے نا
ورنہ وہ بات کے دوران بھی جا سکتا تھا