اینے سوہنے نین کسے دے
پر کیہہ کریئے ہین کسے دے
کاں کاں کنیں پے جاوے تے
دل نوں دھوکھے پین کسے دے
اج اوہ محفل وچ آون گے
ساہ ای کھوہ نہ لین کسے دے
دے دیدار تے چین دوا دے
کم آ جا بے چین کسے دے
بُھورا اندر وِچھ جاندا اے
بھاویں ہوون وین کسے دے
اس لئ اُڈیا رنگ سی خورے
اپنے نال ای جنگ سی خورے
زندگی مول نہ مگروں لتھی
اونتر جانی منگ سی خورے
ہمت وی منہ بھرنے ڈگی
لیکھ اڑائی ٹنگ سی خورے
سوچاں وچ فتور سی چوکھا
یاں فر زندگی تنگ سی خورے
اوہ تے چاہندا سی کچھ منگاں
مینوں میتھوں سنگ سی خورے
اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں
میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں
ہے اُسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
میں نے اندازے لگائے کہ سبب کیا ہو گا
پر میرے تیر ترازو ہی نہیں ہوتے تھے
جس کا ڈر تھا مجھے معلوم پڑا لوگوں سے
پھر وہ خوش بخت پلٹ آیا تیری دنیا میں
جس کے جانے پہ مجھے تو نے جگہ دی دل میں
میری قسمت میں ہی جب خالی جگہ لکھی تھی
تجھ سے شکوہ بھی اگر کرتا تو کیسے کرتا ۔۔
میں وہ سبزہ تھا جسے روند دیا جاتا ہے
میں وہ جنگل تھا جسے کاٹ دیا جاتا ہے
میں وہ در تھا جسے دستک کی کمی کھاتی ہے
میں وہ منزل تھا جہاں ٹوٹی سڑک جاتی ہے
میں وہ گھر تھا جسے آباد نہیں کرتا کوئی
میں تو وہ تھا کہ جسے یاد نہیں کرتا کوئی
خیر اس بات کو تو چھوڑ بتا کیسی ہے؟؟
تو نے چاہا تھا جسے وہ تیرے نزدیک تو ہے
کون سے غم نے تجھے چاٹ لیا اندر سے
آجکل پھر تو چپ رہتی ہے سب ٹھیک تو ہے
تو کسی اور ہی دنیا میں ملی تھی مجھ سے
تو کسی اور ہی موسم کی مہک لائی تھی
ڈر رہا تھا کہ کہیں زخم نہ بھر جائیں میرے
اور تو مٹھیاں بھر بھر کے نمک لائی تھی
اور ہی طرح کی آنکھیں تھی تیرے چہرے پر
تو کسی اور ہی ستارے کی چمک لائی تھی
تیری آواز ہی سب کچھ تھی مجھے مونثِ جاں
کیا کروں میں کہ تو بولی ہی بہت کم مجھ سے
تیری چپ سے ہی یہ محسوس کیا تھا میں نے
جیت جائے گا کسی روز تیرا غم مجھ سے
شہر آوازیں لگاتا تھا مگر تو چپ تھی
یہ تعلق مجھے کھاتا تھا مگر تو چپ تھی
وہی انجام تھا عشق کا جو آغاز سے ہے
تجھ کو پایا بھی نہیں تھا کہ تجھ کھونا تھا
چلی آتی ہے یہی رسم کئی صدیوں سے
یہی ہوتا تھا یہی ہو گا یہی ہونا تھا
پوچھتا رہتا تھا تجھ سے کہ بتا کیا دکھ ہے
اور میری آنکھ میں آنسو بھی نہیں ہوتے تھے
جانے والے سے رابطہ رہ جائے
گھر کی دیوار پر دیا رہ جائے
اک نظر جو بھی دیکھ لے تجھ کو
وہ ترے خواب دیکھتا رہ جائے
اتنی گرہیں لگی ہیں اس دل پر
کوئی کھولے تو کھولتا رہ جائے
کوئی کمرے میں آگ تاپتا ہو
کوئی بارش میں بھیگتا رہ جائے
نیند ایسی کہ رات کم پڑ جائے
خواب ایسا کہ منہ کھلا رہ جائے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے مرے
ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں
میں آ رہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا
چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر
میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
اس اژدہے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آ رہا ہے یا نہیں
یہ عشق بھی عجب کہ ایک شخص سے
مجھے لگا کہ ہو گیا ہوا نہیں
خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو
کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں
تو نے کیا قندیل جلا دی شہزادی
سرخ ہوئی جاتی ہے وادی شہزادی
شیش محل کو صاف کیا ترے کہنے پر
آئینوں سے گرد ہٹا دی شہزادی
اب تو خواب کدے سے باہر پاؤں رکھ
لوٹ گئے ہیں سب فریادی شہزادی
تیرے ہی کہنے پر ایک سپاہی نے
اپنے گھر کو آگ لگا دی شہزادی
میں تیرے دشمن لشکر کا شہزادہ
کیسے ممکن ہے یہ شادی شہزادی
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے









submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain